إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
جو لوگ کچھ سوچتے سمجھتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات اور دن کے ایک دوسرے کے بعد آنے میں، ان کشتیوں میں جو لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں لیے سمندروں میں چلتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے آسمان سے بارش نازل کرنے میں، جس سے وہ مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے، اور اس میں ہر طرح کی جاندار مخلوق کو پھیلا دیتا ہے، نیز ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو زمین و آسمان کے درمیان تابع فرمان ہیں [٢٠٢] بے شمار نشانیاں ہیں
1۔ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد(ایک معبود) ہونے کا بیان تھا، اس آیت میں اس کے ایک ہونے کے دلائل کا بیان ہے۔ قرآن نے ان آٹھ چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے ایک ہونے کے ثبوت میں کئی جگہ الگ الگ ذکر فرمایا ہے، مگر یہاں ان سب کو جمع کر دیا ہے۔ کائنات کی ان چیزوں کو خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے متعلق خود مشرکین بھی مانتے تھے کہ ان کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ (کبیر) 2۔مفسر قرآن امین شنقیطی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہاں آسمان و زمین کی پیدائش میں توحید کی نشانی ہونے کی تفصیل بیان نہیں ہوئی، دوسرے مقامات پر تفصیل موجود ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ ق (۶ تا ۸) سورۂ ملک (۳ تا ۵، ۱۵) اور سورۂ لقمان (۱۱، ۱۲) اسی طرح دن رات کے بدلنے میں توحید کی نشانی ہونے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ قصص (۷۱ تا ۷۳) اور اعراف (۵۴) آسمان و زمین کے درمیان بادل کے مسخر ہونے کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۵۷) اور سورۂ نور (۴۳)۔