لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ان قصوں میں اہل عقل و خرد کے لئے (کافی سامان) عبرت ہے۔ یہ قرآن کوئی ایسی باتیں نہیں جو گھڑ لی گئی ہوں بلکہ یہ تو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔ اس میں ہر بات [ ١٠٥] کی تفصیل موجود ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے یہ ہدایت اور رحمت ہے
لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِهِمْ ....: یعنی رسولوں اور گزشتہ قوموں خصوصاً یوسف علیہ السلام اور ان سے متعلق تمام لوگوں مثلاً والد، بھائی، قافلے والے، عزیز مصر، اس کی بیوی، زنان مصر، قید کے ساتھی اور شاہِ مصر ان سب کے بیان میں عقل مندوں کے لیے بڑی عبرت ہے، یہ کوئی گھڑی ہوئی کہانیاں نہیں، بلکہ پہلی آسمانی کتابوں کی صحیح باتوں کی تصدیق، ان کی کمی بیشی کو کھول کر بیان کرنے والی، ان کے صحیح مضامین کی محافظ اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔