فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ
پھر جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے باپ کو اپنے پاس بٹھایا اور (کنبہ والوں سے) کہا : شہر میں چلو۔ انشاء اللہ [٩٣] امن و چین سے یہاں رہو گے
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى يُوْسُفَ.....: یعنی یعقوب علیہ السلام کنعان سے سارے اہلِ خانہ سمیت روانہ ہو کر مصر پہنچے۔ آیت کے الفاظ ’’مصر میں داخل ہو جاؤ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے شہر سے باہر نکل کر عمائدین حکومت اور عوام سے مل کر اپنے والدین اور افراد خانہ کا شان وشوکت سے استقبال کیا، والدین کو خصوصاً دوسرے خیموں سے جو استقبال کے لیے لگائے گئے تھے، الگ اپنے خیمے میں رکھا اور فرمایا، اب آپ لوگ مصر میں داخل ہو جائیں۔ آپ ان شاء اللہ یہاں نہایت امن سے رہیں گے۔ قحط، غربت، دشمن، غرض کسی چیز کی فکر مت کریں۔ بعض نے لکھا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے یہ الفاظ مصر میں داخل ہونے کے بعد کہے۔ ’’ اَبَوَيْهِ ‘‘ سے مراد ماں باپ ہیں، کئی مفسرین نے لکھا ہے کہ یوسف علیہ السلام کی والدہ کا چھوٹے بھائی کی ولادت کے وقت انتقال ہو گیا تھا، یہ ماں یوسف علیہ السلام کی خالہ تھیں جن سے یعقوب علیہ السلام نے بعد میں نکاح کیا تھا۔ دلیل اس کی اسرائیلی روایات کے سوا کچھ نہیں، جن کی صحت کا یقین نہیں، البتہ بعض نے لکھا ہے کہ ان کی والدہ زندہ تھیں اور وہی یعقوب علیہ السلام کے ساتھ مصر پہنچی تھیں۔ (معالم) ابن جریر رحمہ اللہ نے اس دوسرے قول کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی تائید کی ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن مجید کے الفاظ کا ظاہر معنی یہی ہے۔ یہاں ان مفسرین کی بات پر افسوس ہوتا ہے جو قرآن مجید کی صراحت کے بعد آزر کو باپ کے بجائے چچا اور یوسف علیہ السلام کی والدہ کو ان کی خالہ بتانے پر اصرار کرتے ہیں۔ صرف ان کتابوں میں پڑھ کر جن کی بات کو سچا سمجھنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے، اگرچہ جھوٹا کہنے سے بھی منع کیا ہے، مگر ایسی ناقابل یقین بات کے ساتھ قرآن کی بات کو توڑنے مروڑنے کی کیا ضرورت ہے۔