وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
یعقوب نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہنے لگے : ہائے یوسف! اور ان کی آنکھیں غم سے بے نور ہوگئی تھیں اور وہ [٨٢] خود غم سے بھرے ہوئے تھے
1۔ وَ تَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ يٰاَسَفٰى ....: ’’ يٰاَسَفٰى ‘‘ اصل میں یائے متکلم کے ساتھ ’’يَا أَسَفِيْ‘‘ تھا، تخفیف اور اظہار غم کے لیے یاء کو الف سے بدل دیا ہے۔ وَ ابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ ’’غم سے اس کی آنکھیں سفید ہو گئیں‘‘ یعنی آنسوؤں کے متواتر بہنے سے آنکھوں کی سیاہی پر سفیدی چھا گئی اور بینائی خراب ہو گئی۔ ’’ كَظِيْمٌ ‘‘ بمعنی ’’مَكْظُوْمٌ‘‘ ہے جو غم سے بھرا ہوا ہو، لیکن لوگوں سے چھپائے اور اظہار نہ کرے۔ اسی سے ہے : ﴿ وَ الْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ ﴾ [ آل عمران : ۱۳۴ ] یعنی غصے کو روک لینے والے۔ ’’كَظَمَ فُلَانٌ السِّقَاءَ‘‘ یعنی فلاں نے بھرے ہوئے مشکیزے کا منہ بند کر دیا۔ یعنی یعقوب علیہ السلام نے جب بیٹوں کی بات سن لی اور انھیں جواب دے دیا تو ان پر غموں کا سیلاب امڈ آیا اور دل کے تمام زخم تازہ ہو گئے، چنانچہ انھوں نے بیٹوں کو چھوڑا اور مجلس سے چلے گئے اور کہنے لگے : ’’ہائے میرا یوسف کا غم‘‘ اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں، مگر غم سے بھرے ہوئے ہونے کے باوجود اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ رہ گیا دل کا غم اور مصیبت میں رونا اور آنسو بہانا تو یہ جائز ہے اور انسان کے اختیار سے باہر ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ابراہیم فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا : (( إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ إِلاَّ مَا يَرْضٰی رَبُّنَا وَ إِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيْمُ ! إِنَّا لَمَحْزُوْنُوْنَ)) [بخاري، الجنائز، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إنا بک لمحزونون : ۱۳۰۳۔ مسلم : ۲۳۱۵ ] ’’بے شک آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے اور ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے جو ہمارے رب کو پسند ہو اور بے شک ہم تیری جدائی سے اے ابراہیم! یقیناً غم زدہ ہیں۔‘‘ ہاں مصیبت کے وقت نوحہ کرنا، گریبان پھاڑنا اور منہ پر طمانچے مارنا سخت ممنوع ہے۔ 2۔ اگرچہ خبر دوسرے دو بیٹوں کی آئی تھی مگر یعقوب علیہ السلام کے منہ سے یوسف پر غم کی شدت کے الفاظ نکلے، اس کی وجہ یہ تھی کہ زخم کے اوپر جب زخم لگے تو پہلا زخم زیادہ تکلیف دیتا ہے۔ ’’ وَلٰكِنَّ نَكْأَ الْجُرْحِ بِالْجُرْحِ أَوْجَعُ ‘‘ ’’لیکن زخم کا نئے زخم سے چھل جانا زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔‘‘