سورة یوسف - آیت 81

ارْجِعُوا إِلَىٰ أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

تم لوگ اپنے باپ سے جاکر کہو : ابا جان! آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے۔ ہم نے وہی گواہی دی جو ہم جانتے [٧٨] تھے اور ہم پوشیدہ چیزوں کے نگہبان نہیں ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِرْجِعُوْا اِلٰى اَبِيْكُمْ ....: البتہ تم واپس جا کر والد کو بتاؤ کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے، اگر تم بھی واپس نہ گئے تو والد اور زیادہ پریشان ہوں گے کہ شاید تمام بیٹے ہی گرفتار ہو گئے، یا ان کا کیا بنا، اس لیے واپس جا کر انھیں حقیقت حال سے آگاہ کرو۔ وَ مَا شَهِدْنَا اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا : اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ ہم نے بھائی کے چور ہونے کی شہادت اپنے علم ہی کے مطابق دی ہے، کیونکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے اس کے سامان سے پیمانہ نکلتا ہوا دیکھا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم نے عزیز مصر کو جو مسئلہ بتایا کہ چور کی یہ سزا ہے تو وہ ہم نے اپنے علم ہی کے مطابق بتایا کہ ہمارے باپ دادا کی شریعت کے مطابق اس کا یہ حکم ہے۔ وَ مَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حٰفِظِيْنَ: یعنی جب ہم نے آپ کو قسم کھا کر عہد دیا تھا، ہمیں غیب کا علم تو نہیں تھا کہ بھائی مصر میں جا کر چوری کرے گا، ورنہ ہم اسے اپنے ساتھ کیوں لے جاتے، یا آپ کو یہ پختہ عہد کیوں دیتے کہ اسے اپنے ساتھ ضرور واپس لائیں گے۔