قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
یعقوب نے کہا : جب تک تم مجھے اللہ کے نام پر پختہ عہد نہ دو گے کہ ہم اسے یقینا آپ کے پاس لائیں گے، تب تک میں کبھی اسے تمہارے ساتھ روانہ نہ کروں گا۔ الا یہ کہ تم سب ہی کہیں گھیرے میں لے لئے جاؤ'' پھر جب انہوں نے اس طرح کا پختہ عہد دے [٦٤] دیا تو یعقوب کہنے لگے : جو کچھ ہم قول و قرار کر رہے ہیں اللہ اس پر ضامن ہے
قَالَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ: ’’ وَكِيْلٌ ‘‘ بروزن ’’فَعِيْلٌ‘‘ بمعنی مفعول ہے، یعنی ’’مَوْكُوْلٌ اِلَيْهِ‘‘ جس کے سپرد اپنا کام کر دیا جائے۔ یعقوب علیہ السلام نے ایک طرف بیٹوں سے پختہ عہد، یعنی قسمیں لے لیں اور ظاہری اسباب سے پورا وثوق حاصل کر لیا اور دوسری طرف معاملہ اللہ کے سپرد کر کے بھروسا اسی پر رکھا کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اسے پورا کرنا اسی کے اختیار میں ہے اور جو جان بوجھ کر بدعہدی یا خیانت کرے گا وہ خود اسے سزا دے گا، اللہ پر توکل کا صحیح مطلب بھی یہی ہے۔