مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ کے سواجنہیں تم پوجتے ہو وہ تو ایسے نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھ لیے ہیں، ان کے لئے اللہ نے کوئی سند [٣٩] نازل نہیں کی۔ اللہ کے سوا یہاں کسی کی فرماں روائی نہیں۔ اس نے یہی حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی دین برحق ہے۔ لیکن اکثر لوگ یہ باتیں جانتے نہیں
مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ اِلَّا اَسْمَآءً.....: ان کے ذہن میں ایک رب اور کئی ارباب کے موازنے کی سوچ ابھارنے کے بعد اب صاف لفظوں میں کئی ارباب کا باطل ہونا بیان فرمایا کہ تم جن معبودوں کی عبادت کرتے ہو حقیقت میں وہ کہیں موجود ہی نہیں ہیں، محض فرضی اور خیالی چیزیں ہیں، جن کے نام تم نے اور تمھارے آبا و اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ حکم تو اللہ کے سوا کسی کا ہے ہی نہیں، نہ قدری حکم نہ شرعی، یعنی نہ کائنات کے نظام میں اس کے سوا کسی کا کوئی حکم چلتا ہے، مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ سورج کو چلنے کا حکم دے اور یہ اسے روک دے، یا وہ کسی کو مارنا چاہے اور یہ اسے مرنے نہ دے اور نہ شریعت اور عبادت میں اس کے سوا کسی کو اپنا حکم چلانے کی اجازت ہے، اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، یہی سیدھا اور محکم و مضبوط دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، اس لیے وہ شرک کے گورکھ دھندے میں پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کی یہ تقریر ملت ابراہیم، یعنی اسلام کی بہترین مختصر ترجمانی ہے۔