وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
پھر ایک قافلہ آیا جس نے اپنے پانی لانے والے کو (پانی کی تلاش میں) بھیجا۔ اس نے (اس کنوئیں میں) اپنا ڈول لٹکایا تو بول اٹھا : بڑی خوشی کی بات ہے [١٧] یہاں تو ایک لڑکا ہے'' چنانچہ انہوں نے اسے بکاؤ مال سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کر رہے تھے اللہ اسے خوب جانتا تھا
1۔ وَ جَآءَتْ سَيَّارَةٌ.....: یہ قافلہ مصر کی طرف جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوسف علیہ السلام پر یہ احسان ہوا کہ قافلے والوں کی توجہ کنویں سے پانی لانے کی طرف ہو گئی اور یوسف علیہ السلام کو باہر نکلنے کا موقع مل گیا۔ یہاں بات خود بخود سمجھ میں آ رہی ہے کہ ڈول والے نے ڈول لٹکایا تو یوسف علیہ السلام اس کے ساتھ لٹک گئے اور اوپر آ گئے۔ 2۔ وَ اَسَرُّوْهُ بِضَاعَةً:’’ بِضَاعَةً ‘‘ کا معنی سامان تجارت ہے، یعنی قافلے والوں پر لازم تھا کہ وہ اردگرد اعلان کرتے، یا یوسف علیہ السلام کے بتانے کے مطابق انھیں ان کے والد کے پاس پہنچا دیتے، مگر وہ ظالم بے دین تھے۔ انھوں نے زبردستی غلام بنا کر سامانِ تجارت کے طور پر چھپا لیا کہ مصر جا کر فروخت کریں گے، حالانکہ کسی آزاد کو غلام بنانا یا اسے فروخت کرنا حرام ہے۔ اس سارے سلسلۂ کلام میں یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ صاف ظاہر ہے کہ یوسف علیہ السلام کے نکلنے پر اہلِ قافلہ بہت خوش ہوئے اور انھوں نے سامانِ تجارت کے طور پر انھیں چھپا لیا، کسی کو خبر تک نہیں ہونے دی۔ 3۔ ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ بھائیوں کا یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکنا آخر ان کی عظمت و رفعت کا ذریعہ بن گیا۔ آپ بھی اپنے خاندان کے لوگوں کے ظلم وستم سے بددل نہ ہوں۔ یہ سب بھی آخر کار برادرانِ یوسف کی طرح آپ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔