سورة یوسف - آیت 9

اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(لہٰذا) یا تو یوسف کو مار ڈالو'یا اسے کہیں دور پھینک دو (اس طرح) تمہارا باپ تمہاری ہی طرف متوجہ رہے گا پھر اس کے بعد تم نیک لوگ [٨] بن جانا‘‘

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اقْتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا: دیکھیے حسد انسان کو کہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ آدمی صغیرہ گناہ کو کبیرہ اور کبیرہ کو صغیرہ سمجھنے لگتا ہے ۔یوسف علیہ السلام کا باپ کی نظر میں زیادہ محبوب ہونا بھائیوں کی نظر میں اتنا بڑا جرم بن گیا کہ اس کی وجہ سے قتل ناحق جو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے، ان کی نگاہ میں معمولی بن گیا۔ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے قصے میں بھی حسد نے ایک بے گناہ کا قتل قاتل کی نگاہ میں جائز بلکہ خوش نما بنا دیا۔ دوسری تجویز بھی کم خطرناک نہ تھی۔ ’’طَرْحٌ‘‘ کا معنی ہے دور پھینک دینا۔ ’’ اَرْضًا ‘‘ نکرہ ہے، یعنی اسے کسی نامعلوم زمین میں پھینک دو، تاکہ وہیں مر جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کے متعلق فرمایا : ﴿ وَ لَوْ لَا اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَآءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا ﴾ [ الحشر : ۳ ] ’’ اور اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ان (بنو نضیر) پر جلاوطن ہونا لکھ دیا تھا تو وہ یقیناً انھیں دنیا میں سزا دیتا۔‘‘ معلوم ہوا کہ جلاوطنی اور وہ بھی نامعلوم سرزمین میں، کم عذاب نہیں ہے۔ يَخْلُ لَكُمْ ....:’’ يَخْلُ ‘‘ اصل میں ’’يَخْلُوْ‘‘ تھا۔ ’’ اقْتُلُوْا ‘‘ (امر) کے جواب میں مجزوم ہونے کی وجہ سے اس کی واؤ اور ’’تَكُوْنُوْنَ‘‘ کا نون گر گئے، یعنی یوسف کے قتل یا غائب کر دینے سے تمھارے والد صاحب کی توجہ صرف تمھارے لیے رہ جائے گی۔ ’’ وَجْهُ ‘‘ کا معنی چہرہ ہے اور چہرے کے ساتھ ہی توجہ ہوتی ہے۔ والد کی محبت میں شریکِ غالب کا کانٹا نکلنے کی دیر ہے، وہ تمھارے ہی ہو جائیں گے۔ حسد نے انھیں ایسا اندھا کیا کہ یہ بھی نہ سوچا کہ اس بوڑھی جان پر کیا گزرے گی، انھیں یوسف علیہ السلام کی عداوت میں نہ باپ پر گزرنے والی حالت کا کوئی خیال آیا نہ یوسف پر رحم آیا۔ وَ تَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ : اتنے بڑے جرم پر ملامت کرنے والے ضمیر کو انھوں نے یہ تسلی دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی کہ یوسف کا قصہ تمام کرکے تم نیک لوگ بن جانا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی سنگ دلی کے باوجود انھیں اپنے مجرم ہونے کا احساس تھا۔ یہ شیطان کا بندے کو گناہ میں مبتلا کرنے کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہے کہ گناہ کر لو، بعد میں توبہ کر لینا، لیکن شیطان کے اس وار سے بچنا نہایت ضروری ہے، کیا خبر کہ اس کے بعد توبہ کا موقع ہی نہ ملے، پہلے ہی موت آ جائے، جس کا وقت کسی کو بتایا ہی نہیں گیا، تاکہ ہر شخص موت کے کسی بھی وقت آ جانے کے خیال سے گناہ سے باز رہے، فرمایا : ﴿ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾ [ آل عمران : ۱۰۲ ] ’’ اور تم ہر گز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔‘‘ پھر اس کی بھی کیا خبر کہ وقت ملنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے اس کی طرف سے توبہ کی توفیق ہی نہ ملے۔ فرمایا : ﴿ وَ اعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ ﴾ [ الأنفال : ۲۴ ] ’’اور جان لو کہ بے شک اللہ بندے اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے۔‘‘ ایک معنی ’’ وَ تَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ ‘‘ کا یہ بھی کیا گیا ہے کہ یوسف کے بعد تم درست معاملے والے لوگ بن جانا، یعنی والد کو راضی کر لینا اور آپس میں شیر و شکر ہو جانا۔ یہ معنی ہو تو بھی وہ دھوکے ہی میں مبتلا تھے۔ اپنے لخت جگر کو غائب کرنے والوں سے ظاہری صلح ہو بھی جائے تو ہر وقت غم سے بھرا ہوا دل پہلی حالت میں کیسے آ سکتا ہے۔