قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
تو باپ نے کہا : ’’میرے پیارے بیٹے! یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا ورنہ وہ تمہارے لیے بری تدبیریں سوچنے لگیں گے کیونکہ شیطان [٤] انسان کا صریح دشمن ہے
1۔ قَالَ يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ.....: یعنی اس کی تعبیر ظاہر ہے، سنتے ہی سمجھ لیں گے۔ گیارہ بھائی تھے اور ایک باپ اور ایک ماں، یہ سب ان کی طرف محتاج ہوں گے، پھر شیطان ان کے دل میں حسد ڈالے گا۔ (موضح) اس وقت ان کی عمر کیا تھی، اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمائی۔ معالم میں ہے کہ بارہ سال تھی، کچھ لوگ بائبل کے حوالے سے سترہ سال بیان کرتے ہیں، مگر تعیین کی کوئی پختہ دلیل نہیں۔ اگر کوئی اسرائیلی روایت ہو بھی تو اسے نہ ہم سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔ ویسے سترہ سالہ جواں جو صحرا میں پلا ہو، اس کے متعلق بھیڑیے کے کھا جانے کا خدشہ کم ہی پیدا ہوتا ہے۔ ہاں یہ ظاہر ہے کہ اس وقت وہ بچے تھے، مگر سمجھ بوجھ رکھتے تھے : ’’يَرْتَعْ وَ يَلْعَبْ ‘‘ (چرے، کھائے پیے اور کھیلے) اور ’’هٰذَا غُلٰمٌ ‘‘ (یہ لڑکا ہے) اور ’’اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا ‘‘ (یا ہم اسے بیٹا بنا لیں گے) سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اگر عمر بتانے کی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالیٰ ضرور بیان فرما دیتا۔ ’’یوسف‘‘ عربی زبان کا نام نہیں کہ اس کا اشتقاق عربی میں سے تلاش کیا جائے، بلکہ عبرانی یا اس زبان کا نام ہے جو یعقوب علیہ السلام استعمال کرتے تھے۔ اس خواب کی تعبیر کافی عرصہ بعد جا کر پوری ہوئی، بعض چالیس برس بتاتے ہیں، بعض کم و بیش، مگر بچپن سے جوانی کا عرصہ جو عزیز مصر کے گھر گزرا، پھر قید خانے کے سات یا نو سال، پھر خوش حالی کے سات سال، جس کے بعد قحط شروع ہوا اور بھائی مجبور ہو کر آئے اکیس بائیس سال سے کم عرصہ کسی صورت نہیں بنتا، زیادہ ہو تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواب کی تعبیر ظاہر ہونے میں لمبی مدت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ 2۔ يٰبُنَيَّ: ’’بُنَيَّ‘‘ ’’اِبْنِيْ‘‘ کی تصغیر ہے، محبت اور شفقت سے فرمایا، اے میرے چھوٹے سے بیٹے، یا اے میرے پیارے بیٹے۔ 3۔ یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو اپنا خواب بھائیوں کے سامنے بیان کرنے سے منع فرمایا، کیونکہ تعبیر ظاہر تھی اور یعقوب علیہ السلام نے مختصراً بیان بھی فرما دی کہ اللہ تعالیٰ تمھیں چنے گا اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے گا۔ قدرتی طور پر جس شخص کو نعمت ملتی ہے اس پر حسد ہوتا ہے اور شیطان بھی انسان کی اس کمزوری، یعنی حسد کو استعمال کرکے بھائیوں کے درمیان اور دوستوں کے درمیان دشمنی پیدا کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ﴾ [ بنی إسرائیل : ۵۳ ] ’’بے شک شیطان ان (میرے بندوں) کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔‘‘ اور یہ اس کے نزدیک سب سے زیادہ قرب کا ذریعہ ہوتا ہے، جیسا کہ ایک لمبی حدیث میں ہے کہ شیطان اپنے لشکر لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بھیجتا ہے : (( ثُمَّ يَجِيْئُ أَحَدُهُمْ فَيَقُوْلُ مَا تَرَكْتُهٗ حَتّٰی فَرَّقْتُ بَيْنَهٗ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ)) [ مسلم، صفات المنافقین، باب تحریش الشیطان....:67؍2813] ’’پھر ان میں سے ایک شیطان آ کر( اپنی کار کردگی بیان کرتے ہوئے) کہتا ہے : ’’ میں نے اس آدمی کا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میں نے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈال دی۔‘‘ اس لیے بھائیوں کو خواب کا علم ہونے پر یوسف علیہ السلام کو ان کی کسی خفیہ تدبیر سے ڈرایا، ساتھ ہی ’’ اِنَّ ‘‘ کے ساتھ اس کی وجہ بیان فرمائی کہ بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اور یہی بات یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھائیوں کے مصر آنے کے موقع پر کہی تھی : ﴿ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطٰنُ بَيْنِيْ وَ بَيْنَ اِخْوَتِيْ ﴾ [ یوسف : ۱۰۰ ] ’’اس کے بعد کہ شیطان نے میرے درمیان اور میرے بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈال دیا تھا۔‘‘ قرآن کے بیان کا تقاضا یہی ہے کہ یوسف علیہ السلام نے والد ماجد کے کہنے کے مطابق وہ خواب بیان نہیں کیا، کیونکہ بھائیوں نے قتل کے مشورے کے وقت بھی خواب کا ذکر نہیں کیا اور یوسف علیہ السلام کی کمال اطاعت کا تقاضا بھی یہی ہے، مگر اسرائیلی روایات میں ہے کہ یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو وہ خواب سنا دیا تھا اور اس پر کئی کہانیوں کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس سے اسرائیلی روایات کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ 4۔ یہاں یعقوب علیہ السلام یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے سامنے خواب بیان کرنے سے منع فرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یعقوب نبی کا فرمان وحی پر مبنی تھا۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے : (( اِسْتَعِيْنُوْا عَلٰی إِنْجَاحِ الْحَوَائِجِ بِالْكِتْمَانِ فَإِنَّ كُلَّ ذِيْ نِعْمَةٍ مَحْسُوْدٌ)) [ السلسلۃ الصحیحۃ :3؍436، ح : ۱۴۵۳ ]’’اپنی حاجتوں کو کامیاب کرنے میں چھپانے سے مدد لو، کیونکہ ہر نعمت والا محسود ہوتا ہے۔‘‘ یعنی اس پر حسد کیا جاتا ہے۔ اس خواب میں بھی اتمام نعمت کی خوش خبری تھی، اسے کامیاب بنانے کے لیے اسے چھپانے کا حکم دیا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ﴾ [الضحٰی : ۱۱ ] ’’اور لیکن اپنے رب کی نعمت، پس (اسے) بیان کر۔‘‘ اس حکم کو اور یعقوب علیہ السلام کے منع کرنے کے حکم کو کیسے جمع کریں گے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام پر ابھی نعمت مکمل ہونا باقی تھی، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نعمت پوری ہو چکی تھی۔ ہمارے لیے بھی دونوں چیزوں میں فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے، تاکہ نعمت مکمل ہونے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ دوسرا جواب جو کتب تفسیر میں ہے، وہ یہ ہے کہ یہ آیت دلیل ہے کہ بعض اوقات نعمت کا اظہار نہ کرنا بلکہ اسے چھپانا جائز ہے، جیسا کہ اوپر سلسلہ صحیحہ کے حوالے سے حدیث گزر چکی ہے، چنانچہ جب نعمت کے ظاہر کرنے سے اپنے خلاف حسد وغیرہ کی بنا پر سازش یا نقصان کا خطرہ ہوتو اسے چھپائے اور اگر یہ خطرہ نہ ہو تو رب تعالیٰ کی نعمت بیان کرے۔ 5۔ اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ، قَالُوْا وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ)) [ بخاری، التعبیر، باب المبشرات : ۶۹۹۰ ] ’’نبوت میں سے مبشرات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔‘‘ لوگوں نے پوچھا : ’’مبشرات (خوش خبریاں) کیا ہیں؟‘‘ فرمایا : ’’اچھے خواب۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَّ أَرْبَعِيْنَ جُزْءً مِنَ النُّبُوَّةِ)) [ بخاری، التعبیر، باب رؤیا الصالحین : ۶۹۸۳، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ]’’صالح آدمی کا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔‘‘ ابو سلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں خواب دیکھا کرتا جو (پریشانی پیدا کرکے) مجھے بیمار کر دیتے، یہاں تک کہ میں نے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ میں بھی خواب دیکھا کرتا تھا جو مجھے بیمار کر دیتے، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( اَلرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ مِنَ اللّٰهِ، فَإِذَا رَأَی أَحَدُكُمْ مَا يُحِبُّ فَلَا يُحَدِّثْ بِهِ إِلاَّ مَنْ يُّحِبُّ، وَ إِذَا رَأَی مَا يَكْرَهٗ فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللّٰهِ مِنْ شَرِّهَا، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَلْيَتْفِلْ ثَلاَثاً وَلَا يُحَدِّثْ بِهَا أحَدًا فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهٗ )) ’’اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو جب تم میں سے کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اسے پسند ہو تو وہ اس کے سوا اسے بیان نہ کرے جو محبت رکھتا ہو اور جب ایسا خواب دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور تین دفعہ (بائیں طرف) تھوک دے اور وہ کسی کو بیان نہ کرے، تو وہ خواب اسے ہر گز کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ [ بخاری، التعبیر، باب اذا رأی ما یکرہ....:۷۰۴۴ ] ایک روایت میں یہ بھی ہے : (( وَلْيَتَحَوَّلْ عَنْ جَنْبِهِ الَّذِيْ كَانَ عَلَيْهِ )) کہ وہ اپنی کروٹ بدل لے۔ [ مسلم، الرؤیا، باب في کون الرؤیا من اللّٰہ.....: ۲۲۶۲ ] اور یہ کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کو ہر قسم کے ضرر سے سلامتی کا سبب بنا دے، جیسا کہ صدقہ و خیرات مصیبتیں دور کرنے کے سبب بن جاتے ہیں۔ 6۔ یعقوب علیہ السلام کے اپنے دوسرے بیٹوں کے متعلق خیال کے اظہار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی نہیں تھے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی خاص اس موضوع پر کتاب میں ہے کہ قرآن، لغت اور واقعات کی دلالت یہی ہے کہ وہ نبی نہیں تھے۔ نہ ہی قرآن یا حدیث میں ان کی نبوت کی طرف کوئی اشارہ موجود ہے۔(سید طنطاوی) البتہ بعد میں ان کی اولاد (اسباط) سے کئی انبیاء و رسل گزرے۔