وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ
نیز آپ دن کے دونوں طرفوں کے اوقات [١٢٦] میں اور کچھ رات گئے نماز قائم کیجئے۔ بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں یہ ایک یاددہانی ہے [١٢٧] ان لوگوں کے لیے جو اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں
1۔ اس آیت اور اس کے بعد والی آیات میں استقامت کا اور طغیانی اور ظالموں کی طرف میلان سے اجتناب کا طریقہ بتایا ہے، وہ ہے اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق، جو نماز سے حاصل ہوتا ہے اور صبر کرنا اور برائی اور فساد فی الارض سے منع کرتے رہنا۔ 2۔ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ: اقامت کا معنی سیدھا کرنا، مراد نماز کو اس کے اوقات پر سنت کے مطابق پورے ارکان اور خشوع و اخلاص کے ساتھ ادا کرنا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے فرمایا : (( صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ )) [ بخاری، الأذان، باب الأذان للمسافرین إذا کانوا....: ۶۳۱ ] ’’نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے دیکھا ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں۔‘‘ قرطبی نے فرمایا کہ مفسرین میں سے کسی کا اختلاف نہیں کہ یہاں اس سے مراد فرض نماز ہے۔ 3۔ ایمان کے بعد سب سے زیادہ زور اقامت ِصلاۃ پر دیا گیا ہے اور اسے کفر و ایمان کے درمیان فرق قرار دیا گیا ہے، کیونکہ روزانہ پانچ دفعہ مسجد میں جا کر اللہ کے سامنے حاضری میں ارکانِ اسلام کا کچھ نہ کچھ حصہ آ جاتا ہے۔ کلمہ ٔ اسلام تشہد میں موجود ہے، پوری نماز کے دوران میں کھانے پینے سے بلکہ دنیا کے ہر کام سے پرہیز روزے کا عکس ہے، اپنے کاروبار کو چھوڑ کر آنا اس شخص کے بس کی بات نہیں جو زکوٰۃ نہ دے سکتا ہو اور قبلے کی طرف رخ حج کی یاد دلاتا ہے۔ 4۔ طَرَفَيِ النَّهَارِ : دن کے دو کنارے۔ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک نہار (دن) ہوتا ہے، اس میں تین نمازیں آجاتی ہیں۔ زوال سے پہلے والے کنارے میں فجر اور زوال کے بعد والے میں ظہر اور عصر۔ ’’ زُلَفًا ‘‘ ’’زُلْفَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، جیسے ’’غُرْفَةٌ ‘‘ کی جمع ’’غُرَفٌ‘‘ ہے، اس سے مراد دن کے آخری حصے کے قریب کے اوقات ہیں، کیونکہ ’’اِزْلَافٌ‘‘ کا معنی قرب ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ﴾ [ الشعراء : ۹۰ ] ’’اور جنت متقی لوگوں کے لیے قریب لائی جائے گی۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى ﴾ [ الزمر : ۳ ] ’’ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔‘‘ اس سے مراد مغرب اور عشاء ہیں، کیونکہ وہ دن کے قریب ہوتی ہیں۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں نمازیں آ جاتی ہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر ان آیات کا نزول معراج کے بعد ہوا ہو تو اجمالی طور پر ان میں پانچوں نمازیں آ جاتی ہیں، البتہ چونکہ یہ سورت مکی ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ یہ آیات معراج میں پانچ نمازیں فرض ہونے سے پہلے نازل ہوئی ہوں اور ان آیات سے دن کے دونوں کنارے سورج نکلنے سے پہلے (فجر) اور غروب ہونے سے پہلے (عصر) کی نماز ہی فرض ہو اور رات کی گھڑیوں سے مراد تہجد ہو جو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور تمام امت پر فرض تھی، پھر اس کی فرضیت منسوخ ہو گئی، البتہ اس کی تاکید اور فضیلت باقی رہی۔ اصل یہ ہے کہ تفصیلی طور پر نماز پنج گانہ کے اوقات کی تعیین اور تفصیل حدیث ہی سے ملتی ہے اور قرآن مجید پر عمل حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ منکرین حدیث میں سے پہلے کچھ لوگ قرآن میں تین نمازیں مانتے تھے، پھر دوپر آ گئے، بعد والے ایک پر آ گئے اور پرویز نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر اب تک متواتر احادیث اور متواتر عمل کے ساتھ آنے والے نماز کے طریقے کا سرے ہی سے انکار کر دیا اور حقیقت یہی ہے کہ صرف قرآن سے نہ نماز کے مکمل اوقات معلوم ہو سکتے ہیں، نہ اس کے ارکان، نہ ارکان کی ترتیب، نہ رکعات کی تعداد اور نہ شروع یا ختم کرنے کا طریقہ، غرض حدیث ترک کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن پر عمل سے جان چھوٹ جائے اور یہی ان بد نصیب لوگوں کی دلی خواہش ہے جو ان شاء اللہ کبھی پوری نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے۔ 5۔ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ: پچھلے جملے میں اللہ کے حکم پر استقامت میں اور ظالموں کی طرف میلان سے محفوظ رہنے میں مدد کرنے والی سب سے مضبوط چیز بتائی تھی کہ فلاں فلاں وقت میں نماز قائم کرو، اب اس کی وجہ بتائی۔ عموماً ’’اِنَّ ‘‘ تعلیل یعنی وجہ بتانے کے لیے آتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نیکی گناہ کو مٹا دیتی ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا ))[ مسند أحمد :5؍153، ح : ۲۱۴۱۲۔ ترمذی : ۱۹۸۷۔ صحیح الجامع : ۹۷، وحسنہ الألبانی ] ’’برائی کے بعد ساتھ ہی نیکی کر تو یہ اسے مٹا دے گی۔‘‘ نماز بھی ایک ایسی ہی نیکی ہے جس سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی اجنبی عورت کا بوسہ لیا، پھر (ازراہ ندامت) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر سوال کرنے لگا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ تو اس آدمی نے کہا : ’’یا رسول اللہ! یہ صرف میرے لیے ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لِجَمِيْعِ أُمَّتِيْ كُلِّهِمْ ))’’یہ میری ساری امت کے لیے ہے۔‘‘ [ بخاری، مواقیت الصلٰوۃ، باب الصلاۃ کفارۃ : ۵۲۶ ] شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو تین طرح : (1) جو نیکیاں کرے اس کی برائیاں معاف ہوں۔ (2) اور جو نیکیاں پکڑے اس سے خو برائی کی چھوٹے۔ (3) اور جس ملک میں نیکیوں کا رواج ہو وہاں ہدایت آئے اور گمراہی مٹے، لیکن تینوں جگہ وزن غالب چاہیے، جتنا میل اتنا صابن۔‘‘ (موضح) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيْهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُوْلُ ذٰلِكَ يُبْقِيْ مِنْ دَرَنِهِ؟ قَالُوْا لاَ يُبْقِيْ مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا، قَالَ فَذٰلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ يَمْحُو اللّٰهُ بِهِ الْخَطَايَا ))[ بخاری، مواقیت الصلٰوۃ، باب الصلوات الخمس کفارۃ : ۵۲۸ ] ’’اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ دفعہ غسل کرے تو تمھارا کیا کہنا ہے کہ یہ اس کی میل میں سے کچھ باقی چھوڑے گا؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’وہ اس کی میل میں سے کچھ باقی نہیں چھوڑے گا۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہی پانچوں نمازوں کی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘