سورة ھود - آیت 87

قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ کہنے لگے : شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی سکھاتی [٩٧] ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے آباء و اجداد پوجتے آئے ہیں یا جیسے ہم چاہتے ہیں اپنے اموال میں تصرف [٩٨] کرنا چھوڑ دیں؟ تم تو بڑے بردبار اور بھلے مانس آدمی تھے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ ....: یعنی کیا تو اپنی نماز کا دائرۂ عمل اس قدر وسیع سمجھتا ہے کہ دوسروں کے مذہبی اور مالی معاملات میں بھی دخل دینے لگا ہے۔ ہماری مرضی ہے جس کی چاہیں پوجا اور جس کی چاہیں بندگی کریں اور یہ مال جو ہمارے اپنے ہیں، ان میں جس طرح چاہیں تصرف کریں، جائز و ناجائز جیسے چاہیں کمائیں، کوئی ہمیں کیوں ٹوکے! یہ وہی سیکولر سوچ ہے جو آج کل بھی چل رہی ہے کہ نماز اور دین ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے۔ مملکت اور دنیا کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے ہم پابند نہیں۔ بے شک دین سود سے روکتا ہے مگر ساری دنیا کی معیشت اس پر چل رہی ہے، دین کا اس میں کیا دخل؟ پھر کوئی شرک کرے، کفر کرے یا موحد ہو، اللہ تعالیٰ کو مانے یا نہ مانے، کسی کو اس سے کیا غرض۔ بس مملکت کے جو قانون خود لوگوں نے اکثریت سے بنائے ہیں، ان کی پابندی لازم ہے، باقی کسی پر کوئی پابندی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی بغاوت ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا نہ ہوتی کہ یا اللہ! میری امت (دعوت و اجابت) کو عام عذاب سے ہلاک نہ کرنا تو کب کا عذاب آ چکا ہوتا۔ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ: اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ تم تو خاندان میں بڑے بردبار اور نہایت سمجھ دار سمجھے جاتے ہو، تمھیں کیا ہو گیا کہ ایسی اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے لگے ہو۔ دوسرا یہ کہ دراصل وہ انھیں ٹھٹھے اور مذاق سے یہ کہہ رہے تھے، مقصد ان کا انھیں نہایت بے حوصلہ اور نادان کہنا تھا۔ صاحب کشاف نے اس کی مثال دی کہ جیسے کوئی شخص کسی سخت بخیل آدمی کو کہے کہ تمھاری سخاوت کا کیا کہنا، اگر تمھیں حاتم طائی دیکھے تو وہ بھی تمھارے آگے سر جھکا دے۔ ایک معنی یہ ہے کہ بس تو ہی ایک عقل مند اور نیک چلن رہ گیا ہے؟ باقی ہم اور ہمارے باپ دادا جاہل اور احمق ہی رہے؟ یہ بھی استہزا اور تمسخر کی ایک صورت تھی۔ (ابن کثیر) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’جاہلوں کا دستور ہے کہ نیکوں کے کام آپ نہ کر سکیں تو انھی کو لگیں چڑانے، یہی خصلت ہے کفر کی۔‘‘ (موضح)