سورة یونس - آیت 100

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ کے اذن کے بغیر ایمان لائے اور اللہ تو ان لوگوں پر گندگی ڈالتا ہے جو عقل [١٠٨] سے کام نہیں لیتے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ وَ مَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : یعنی جس طرح تکوینی طور پر دنیا کی کوئی نعمت کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی، یعنی دنیا کی نعمتوں میں بھی اگرچہ آدمی کی محنت کا دخل ہے، مگر اللہ کے اذن کے بغیر کوئی محنت نہ ہو سکتی ہے اور نہ نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کسی شخص کو ایمان کی نعمت حاصل ہونے یا نہ ہونے کا انحصار بھی اللہ کے اذن پر ہے۔ کوئی شخص اس نعمت کو نہ خود پا سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو عطا کر سکتا ہے، اس لیے اگر نبی چاہے بھی کہ تمام لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بنا سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب، نوح علیہ السلام کا بیٹا اور نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویاں اس کی مثال ہیں، اسی طرح بت گر آزر کا بیٹا ابراہیم، فرعون کی بیوی آسیہ، ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اللہ کے اپنی مرضی سے ایمان کی نعمت عطا کرنے کی مثالیں ہیں۔ وَ يَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ : یعنی اگرچہ ایمان کی توفیق دینے یا نہ دینے کا کلی اختیار اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، مگر اس کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ اس نعمت سے انھی لوگوں کو محروم رکھتا ہے اور انھی کو کفر و شرک کی نجاست میں پڑے رہنے کے لیے چھوڑتا ہے جو اس کی عطا کردہ عقل سے کام نہیں لیتے اور جس راستے پر اپنے باپ دادا کو چلتے دیکھتے ہیں اسی پر آنکھیں بند کرکے چلتے رہنا پسند کرتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۶، ۲۷)۔