قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
آپ ان سے کہئے کہ : مجھے تو اپنے بھی نفع و نقصان کا کچھ اختیار نہیں مگر جو اللہ کی مشیت ہو، ہر امت کے لئے مہلت کی ایک مدت ہے جب ان کی یہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو پھر ایک گھڑی کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی
1۔ قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ : یعنی یہ تعیین میرے اختیار میں نہیں، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ہر امت کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وقت مقرر ہے، جب وہ آ جائے گا پھرایک لمحے کا آگا پیچھا نہیں ہو گا۔ 2۔ قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ....: یعنی تمھاری موت کا وقت یا عذاب آنے کا وقت سب اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت اور مرضی پر موقوف ہے، جب چاہے گا تم پر عذاب بھیجے گا اور جب تک نہیں چاہے گا نہیں بھیجے گا۔ رہا تمھارا مجھ سے اصرار تو میں تمھیں کیا بتاؤں، میں تو خود اپنی ذات کے لیے نہ کسی نقصان کا مالک ہوں اور نہ کسی نفع کا، مگر جو اللہ چاہے، میرے اختیار میں ہوتا تو تم پر کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا۔ دیکھیے سورۂ انعام (۵۷، ۵۸) قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں کو سخت تنبیہ ہے جو مصیبتوں اور مشکل کی گھڑیوں میں، جنھیں اللہ کے سو اکوئی نہیں ٹال سکتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرتے ہیں، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیزیں چاہتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پورا نہیں کر سکتا۔ یہ مقام صرف رب العالمین کا ہے جس نے تمام انبیاء، صالحین اور مخلوقات کو پیدا فرمایا، وہی انھیں روزی اور زندگی بخشتا ہے اور جب چاہتا ہے اس دنیا سے اٹھا لیتا ہے، پھر کسی نبی یا فرشتے یا کسی نیک سے نیک بندے سے کسی ایسی چیز کی درخواست کیونکر کی جا سکتی ہے جس پر اسے قدرت ہی حاصل نہیں؟ اس آیت میں نصیحت کا خاص پہلو یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو تمام بنی آدم کے سردار اور تمام انبیاء سے افضل ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے کسی نقصان یا نفع کا مالک نہ ہونے کی صراحت فرما دی ہے تو کوئی ولی یا امام یا پیر اپنے یا کسی دوسرے کے نفع نقصان کا مالک کیونکر ہو سکتا ہے؟ سخت تعجب کا مقام ہے کہ پھر بھی کچھ لوگ، جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں، مردوں کی قبروں پر جھکتے اور ان سے ایسی ایسی مرادیں طلب کرتے ہیں جنھیں پورا کرنے کی قدرت اللہ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ یہ صریحاً شرک اور کلمہ’’لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ ‘‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور اس سے بڑھ کر افسوس ان کے علماء و مشائخ پر ہے جو انھیں اس کام سے منع نہیں کرتے۔ یہ وہی جاہلیت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عربوں میں پائی جاتی تھی، بلکہ اس کا معاملہ اس جاہلیت سے بھی زیادہ سخت ہے، کیونکہ عرب مشرکین نفع نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھتے تھے اور بتوں کو صرف اپنا سفارشی خیال کرتے تھے، مگر یہ لوگ تو قبروں والوں کو نفع نقصان کا مالک سمجھتے ہیں اور کبھی ان کو علیحدہ اور کبھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکارتے ہیں۔ اس امت میں کتنے ہی لوگ ہیں جنھیں شیطان مردود نے اس ذریعے سے کفر کی راہ پر ڈال دیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہوئے اس پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں کہ ﴿ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ﴾ [ الکہف : ۱۰۴ ] ’’وہ بڑا نیک کام کر رہے ہیں۔‘‘ [ فَإنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے۔ آمین! (مختصر از شوکانی)