وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ
اور ان میں کچھ ایسے ہیں جو آپ کی باتیں سنتے تو ہیں مگر کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں خواہ وہ کچھ بھی سمجھ نہ سکتے ہوں
وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ ....: پچھلی آیت (۴۰) کی ایک تفسیر کے مطابق کفار کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جو قرآن کے حق ہونے پر یقین رکھتے ہیں، مگر ضد اور عناد کی وجہ سے اسے جھٹلا رہے ہیں اور ایک وہ جو عقل کے اندھے ہیں، جنھیں قرآن کے حق ہونے کا یقین ہی نہیں۔ دوسری تفسیر کے مطابق کچھ وہ کفار ہیں جو آئندہ ایمان لے آئیں گے، کچھ وہ جن کی قسمت میں یہ نعمت نہیں ہے۔ اس آیت میں کفار کی اس دوسری قسم کا ذکر ہے جن کی قسمت میں ایمان نہیں اور جنھوں نے ہر حال میں کفر پر اڑے رہنا ہے۔ فرمایا کہ ان میں سے کچھ لوگ آپ کی بات اور قرآن کی قراءت پر کان لگاتے ہیں مگر فائدہ نہیں اٹھا سکتے، کیونکہ حق سننے سے ان کے کان بہرے ہیں، پھر بہرے بھی اگر عقل رکھتے ہیں تو بات سمجھ جاتے ہیں مگر جو بہرے بھی ہوں اور عقل سے بھی خالی ہوں، آپ اپنی بات ان تک کیسے پہنچا سکتے ہیں۔ ’’الصُّمَّ ‘‘ جمع ہے ’’اَصَمُّ ‘‘ کی، یعنی بہرے۔ اسی طرح کچھ لوگ آپ کی طرف دیکھتے ہیں، اگر کوئی عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جیسا سعادت مند ہو تو چہرہ دیکھ کر ہی پہچان لیتا ہے کہ یہ جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ [ ترمذی : ۲۴۸۵۔ ابن ماجہ : ۱۳۳۴ ] مگر جو جان بوجھ کر اندھا بن جائے اور دل کا بھی اندھا ہو، کیا آپ اسے راہ راست پر لا سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ’’ اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَ لَوْ كَانُوْا لَا يَعْقِلُوْنَ ‘‘ میں ’’الْعُمْيَ ‘‘ ’’اَعْمٰي‘‘ کی جمع ہے، مراد آنکھوں کا اندھا ہونا اور ’’ لَا يُبْصِرُوْنَ ‘‘ میں مراد بصارت نہیں بلکہ بصیرت کا نہ ہونا ہے، تاکہ تکرار لازم نہ آئے۔ ایسے لوگوں کو اندھے و بہرے کے علاوہ مردہ بھی کہا گیا ہے، فرمایا : ﴿ اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى ﴾ [ النمل : ۸۰ ] ’’بے شک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔‘‘ مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے کہ ایسے لوگوں کے ایمان نہ لانے سے آپ پریشان خاطر یا دل برداشتہ نہ ہوں۔