سورة یونس - آیت 27

وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيِّئَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ مَّا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ ۖ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ اللَّيْلِ مُظْلِمًا ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جن لوگوں نے برے کام کیے ان کو اتنا ہی بدلہ ملے گا۔ جتنی ان کی برائی ہے۔ ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ کوئی انہیں اللہ سے بچانے والا نہ ہوگا۔ ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوگی جیسے ان پر تاریک [٤٠] رات کے پردے پڑے ہوئے ہوں۔ یہی لوگ دوزخی ہیں۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الَّذِيْنَ كَسَبُوا السَّيِّاٰتِ....: اوپر محسنین (نیکی کرنے والوں) کا بیان تھا، اب ان لوگوں کی حالت بیان کی جو سیئات (برائیوں) کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ’’ سَيِّئَةٍ ‘‘ میں تنوین تنکیر کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’کسی بھی برائی‘‘ کیا ہے۔ گزشتہ آیت میں ذکر ہے کہ نیکی کا بدلہ اس سے بہت اچھا، یعنی جنت اور مزید دیدارِ الٰہی کی صورت میں ملے گا، اب بتایا کہ برائی خواہ کوئی ہو اس کا بدلہ صرف اس کے برابر ملے گا، زیادہ یا کئی گنا نہیں ملے گا۔ انھیں بہت بڑی ذلت گھیرے ہوئے ہو گی، یعنی ’’ ذِلَّةٌ ‘‘ میں تنوین تہویل و تعظیم کے لیے ہے۔ مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ: حقیقت میں تو دنیا ہو یا آخرت، کہیں بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں، مگر انسان دنیا میں بہت سے سہارے تلاش کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان کے ذریعے سے میں نے اپنی مراد حاصل کرلی ہے، مگر آخرت میں اس قسم کے سب اسباب ختم ہو جائیں گے اور ہر ایک کو یہ یقین ہو جائے گا کہ اب اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں، جیسا کہ سورۂ قیامہ میں فرمایا : ﴿ يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍ اَيْنَ الْمَفَرُّ (10) كَلَّا لَا وَزَرَ (11) اِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِ الْمُسْتَقَرُّ ﴾ [القیامۃ : ۱۰ تا ۱۲ ] ’’اور انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ ہر گز نہیں، پناہ کی جگہ کوئی نہیں، اس دن تیرے رب ہی کی طرف جا ٹھہرنا ہے۔‘‘ كَاَنَّمَا اُغْشِيَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّيْلِ مُظْلِمًا : ’’غَشِيَ يَغْشٰي‘‘ (ع) ڈھانپنا۔ ’’اَغْشٰي يُغْشِيْ ‘‘ (افعال) کسی پر کوئی چیز ڈال دینا جو اسے ڈھانپ لے۔ ان کے چہروں کی حد سے بڑھی ہوئی سیاہی کو تشبیہ دی ہے کہ گویا اندھیری رات کے اندھیروں کے کئی ٹکڑے ملا کر ان کے چہروں پر ڈال دیے گئے ہوں، جنھوں نے ان کو ڈھانپ رکھا ہو۔ مجرموں کے چہروں کی سیاہی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر کیا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۰۶، ۱۰۷)، قیامہ(۲۲تا ۲۵) اور عبس (۳۸ تا ۴۱) ’’مُظْلِمًا ‘‘ یہ ’’الَّيْلِ ‘‘ سے حال ہے۔