سورة یونس - آیت 26

لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جن لوگوں نے اچھے کام کئے ان کے لئے ویسا ہی اچھا بدلہ ہوگا اور اس سے زیادہ [٣٨] بھی۔ ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی [٣٩] اور نہ ذلت یہی لوگ جنتی ہیں۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِيَادَةٌ : احسان کی تفسیر حدیث جبریل میں ہے، فرمایا : (( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهٗ فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهٗ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ )) [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم....: ۵۰ ] ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو جیسے اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو یقیناً وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ مقصد یہ کہ خلوص کے ساتھ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو جنت کے ساتھ ایک عظیم زائد چیز بھی عطا ہو گی۔ ’’زِيَادَةٌ ‘‘ میں تنکیر تعظیم کے لیے ہے۔ جنت کی دعوت دینے کے بعد اس کی سعادتوں کا ذکر فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں ’’الْحُسْنٰى ‘‘ جو ’’أَحْسَنُ‘‘ کی مؤنث ہے، اس کا معنی سب سے اچھا بدلہ ہے اور فرمایا ایک عظیم زائد چیز بھی ہے۔ ’’زِيَادَةٌ ‘‘ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، اس ’’زِيَادَةٌ ‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔ یہی مفہوم سورۂ نساء (۱۷۳)، نور (۳۸) اور سورۂ ق (۳۵) میں بیان ہو اہے۔ متعدد صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے، چنانچہ صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ﴿ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِيَادَةٌ ﴾ اور فرمایا : ’’جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو اس وقت ایک منادی کرنے والا پکارے گا : ’’اے جنت والو! اللہ نے تم سے ایک وعدہ کیا تھا، وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی پورا کر دیا جائے۔‘‘ وہ کہیں گے : ’’ وہ کون سا وعدہ ہے؟ کیا اس نے ہمارے میزان (نیک اعمال کے تول) بھاری نہیں کر دیے؟ کیا اس نے ہمارے چہرے روشن نہیں کردیے، ہمیں جنت میں داخل اور آگ سے محفوظ نہیں کر دیا؟‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَيُكْشَفُ لَهُمُ الْحِجَابُ فَيَنْظُرُوْنَ إِلَيْهِ، قَالَ : ’’ فَوَاللّٰهِ ! مَا أَعْطَاهُمْ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظْرِ إِلَيْهِ وَلاَ أَقَرَّ بِأَعْيُنِهِمْ )) [ مسند أحمد :4؍333، ح : ۱۸۹۶۵۔ مسلم، الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین....: ۱۸۱ ]’’اس وقت ان کے لیے پردہ ہٹا دیا جائے گا اور وہ اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے۔‘‘ پھر فرمایا : ’’اللہ کی قسم! انھیں اب تک ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہو گی جو انھیں اس دیدار سے زیادہ محبوب ہو اور اس میں ان کی آنکھوں کے لیے اس سے زیادہ ٹھنڈک ہو۔‘‘ اس آیت کی تفسیر ایک دوسری آیت اور اس کی تفسیر سے بھی ہو سکتی ہے۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۷۲)۔