وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
(تم ایسی زندگی پر ریجھتے ہو) اور اللہ تمہیں سلامتی [٣٧] کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھلا دیتا ہے
وَ اللّٰهُ يَدْعُوْا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ....: اوپر کی آیت میں دنیا اور اس کے بہت جلد زوال کا ذکر کرکے لوگوں کو اس کی طرف مائل ہونے سے نفرت دلائی، اب اس آیت میں جنت کی ترغیب دی اور جنت کا نام ’’دار السلام‘‘ رکھا۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۲۵ تا ۱۲۷) یعنی جو ہر قسم کے آفات و آلام سے پاک ہے اور اس میں سلامتی ہی سلامتی ہے، فرشتے ہر طرف سے اس میں سلام کریں گے اور اہل جنت بھی ایک دوسرے کو سلام کا تحیہ پیش کریں گے، فرمایا : ﴿ وَ تَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ ﴾ [یونس : ۱۰ ] ’’اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات) میں سلام ہو گی۔‘‘ رب رحیم کی طرف سے بھی سلام کی نعمت سے سرفراز ہوں گے، فرمایا : ﴿ سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ ﴾ [ یٰس : ۵۸] ’’سلام ہو، اس رب کی طرف سے کہا جائے گا جو بے حد مہربان ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جنت کی دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دی ہے، چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل اور میکائیل نے آپس میں میرے لیے ایک مثال بیان کی کہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک محل بنایا، پھر اس میں ایک شان دار دعوت کا اہتمام کیا اور لوگوں کو بلانے کے لیے ایک بلانے والا بھیجا، پس جس شخص نے اس بلانے والے کے کہنے کو قبول کیا وہ تو محل میں بھی داخل ہو گا اور کھانا بھی کھائے گا اور جو بلانے والے کے کہنے کو قبول نہیں کرے گا وہ نہ تو محل میں داخل ہو گا اور نہ کھانا کھائے گا، پھر انھوں نے کہا، اس کے لیے اس کی وضاحت کرو، تاکہ یہ سمجھ جائے! تو ایک نے کہا کہ وہ محل جنت ہے اور اس کی طرف بلانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تو جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی، تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے (اچھے برے کے) درمیان فرق (کرنے والے) ہیں۔ [ بخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : ۷۲۸۱ ]