سورة یونس - آیت 24

إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

دنیا کی زندگی کی مثال تو ایسے ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا جس سے زمین کی نباتات خوب گھنی [٣٥] ہوگئی جس سے انسان بھی کھاتے ہیں اور چوپائے بھی۔ حتیٰ کہ زمین اپنی بہار پر آگئی اور خوشنما معلوم ہونے لگی اور کھیتی کے مالکوں کو یقین ہوگیا کہ وہ اس پیداوار سے فائدے اٹھانے پر قادر ہیں تو یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا تو ہم نے اس کو کٹی ہوئی کھیتی کی طرح [٣٦] بنا دیا۔ جیسے کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ اسی طرح ہم اپنی آیات ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو کچھ غورو فکر کرتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا....: پچھلی آیت میں ذکر تھا کہ تم یہاں جتنی بھی سرکشی کر لو یا لذتوں میں مست ہو کر ہماری آیات کو جھٹلا لو، یہ دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے اور بہت جلد فنا ہو جانے والا ہے۔ اس آیت میں اس کی مثال بیان فرمائی کہ آسمان سے پانی برسنے سے زمین میں سے لوگوں کے اور ان کے چوپاؤں کے کھانے اور لذت حاصل کرنے کے لیے مختلف فصلیں، کھیتیاں، چارا اور پھل پیدا ہوئے، پھر خوب پھلے پھولے، زمین سج گئی، مالک سمجھنے لگے کہ ہمیں اس سے فائدہ اٹھانے کی اور اس سے غلہ، میوے اور سبزیاں حاصل کرنے کی پوری قدرت حاصل ہے۔ اَتٰىهَا اَمْرُنَا لَيْلًا اَوْ نَهَارًا....: ’’اَمْرُنَا ‘‘ سے مراد اس کے فنا کا حکم ہے، خواہ وہ پک کر زرد ہو گئی ہو اور کاٹ لی گئی ہو، یا پھر کسی دشمن نے کچی ہی برباد کر دی ہو، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت سیلاب، پالے، آگ یا طوفان کی شکل میں آ پڑی کہ پکنے سے پہلے کچی ہی اس طرح کٹ کر نا پید ہو گئی گویا کبھی یہاں رہی ہی نہیں۔’’حَصِيْدًا ‘‘ بمعنی ’’مَحْصُوْدٌ‘‘ یعنی کٹی ہوئی۔ كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ: ’’ لَمْ تَغْنَ ‘‘ ’’غَنِيَ يَغْنٰي ‘‘ (ع) کسی جگہ رہنا۔ یہی حال انسانی زندگی کا ہے، روح پانی کی طرح آسمان سے اترتی ہے اور بدن اس سے مل کر خوب پھلتا پھولتا ہے، جب جوانی پر آتا ہے تو علم و ہنر سیکھتا ہے اور امید ہو جاتی ہے کہ چند روز جی کر مزے اڑائیں گے، گھر والوں کو یقین ہوتا ہے کہ اب کما کر لائے گا کہ یکایک موت آجاتی ہے اور تمام امیدوں کو خاک میں ملا دیتی ہے اور ایسے معلوم ہوتا ہے ’’كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ ‘‘ (جیسے وہ کل تھا ہی نہیں)، کچھ مدت بعد وہ ذہنوں سے بھی محو ہو جاتا ہے اور اگر وہ اپنی عمر پوری بھی کر لے تو جس طرح پکی ہوئی کھیتی کاٹ لی جاتی ہے یا خود بخود ہی چورا بن کر بکھر جاتی ہے، اسی طرح بڑھاپے کے بعد یہ بھی فنا کی نذر ہو جاتا ہے۔ سورۂ حدید (۲۰) اور قلم (۱۷ تا ۳۳) میں بھی دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ اسی لیے ایک لمبی حدیث میں آیا ہے : (( يُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُصْبَغُ فِي النَّارِ صَبْغَةً ثُمَّ يُقَالُ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِيْمٌ قَطُّ؟ فَيَقُوْلُ لاَ وَاللّٰهِ ! يَا رَبِّ! وَيُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسَا فِی الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُقَالُ لَهٗ يَا ابْنَ آدَمَ ! هَلْ رَأَيْتَ بُؤْسًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ؟ فَيَقُوْلُ لاَ وَاللّٰهِ ! يَا رَبِّ ! مَا مَرَّ بِيْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلاَ رَأَيْتُ شِدَّةً قَطُّ )) [ مسلم، صفات المنافقین، باب صبغ أنعم أہل الدنیا فی النار : ۲۸۰۷، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] ’’قیامت کے دن اس شخص کو جو اہل جہنم میں سے دنیا میں سب سے زیادہ خوش حال تھا، لایا جائے گا، اسے آگ میں ایک غوطہ دے کر نکالا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا: ’’کیا تم نے کبھی کوئی خوشحالی دیکھی، کیا تیرے پاس آسودگی آئی؟‘‘ وہ جواب دے گا : ’’نہیں اللہ کی قسم! اے میرے رب!‘‘ پھر اہل جنت میں سے اس شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ بدحال تھا، اسے جنت میں ایک غوطہ دے کر نکالا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا : ’’کیا تم نے دنیا میں کوئی بدحالی دیکھی، یا کوئی سختی پہنچی؟‘‘ وہ جواب دے گا :’’نہیں اللہ کی قسم! اے میرے رب! مجھے کوئی سختی نہیں پہنچی اور میں نے کوئی بدحالی نہیں دیکھی۔‘‘ يَتَفَكَّرُوْنَ: تا کہ ان پر غور کریں اور ان سے سبق حاصل کریں۔