قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
نیز آپ کہئے : ’’اگر اللہ چاہتا تو میں تمہارے سامنے یہ قرآن نہ پڑھتا اور نہ ہی اللہ تمہیں اس سے آگاہ کرتا۔ میں نے اس سے پہلے تمہارے درمیان [٢٥] اپنی عمر کا بڑا حصہ گزارا ہے۔ پھر بھی تم سوچتے نہیں‘‘
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ....: ’’تَلَوْتُ ‘‘ ’’ تَلاَ يَتْلُوْ تِلَاوَةً ‘‘ (ن) سے واحد متکلم ماضی معلوم کا صیغہ ہے۔ ’’ مَا تَلَوْتُهٗ‘‘ میں اسے نہ پڑھتا۔ ’’أَدْرٰي ‘‘ یہ’’دَرٰي يَدْرِيْ ‘‘ (ض) (جاننا، معلوم کرنا) سے باب افعال ’’اَدْرٰي يُدْرِيْ‘‘ کا ماضی معلوم واحد غائب کا صیغہ ہے۔ ’’ وَ لَا اَدْرٰىكُمْ بِهٖ ‘‘ اور نہ وہ تمھیں اس کی خبر دیتا، یا نہ وہ تمھیں یہ معلوم کرواتا۔ مطلب یہ ہے کہ میں نبوت سے پہلے ایک عمر، یعنی چالیس برس تم میں رہا، اس ساری مدت میں تم سب جانتے ہو کہ نہ مجھے پڑھنا آتا تھا نہ لکھنا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ﴾ [ العنکبوت : ۴۸ ]’’اور اس سے پہلے تو نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، اس وقت باطل والے ضرور شک کرتے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ شوریٰ (۵۲، ۵۳) اور تم سب کا میرے صدق اور امانت پر بھی اتفاق ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۳۳) تو کیا تمھاری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ قرآن جس کی سب سے چھوٹی سورت کی مثل پیش کرنے سے اللہ کے سوا پوری کائنات عاجز ہے، وہ میں نے کیسے تصنیف کر لیا اور تم اعتبار کیوں نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو نہ وہ اسے مجھ پر نازل کرتا، نہ میں اسے پڑھ کر تمھیں سناتا اور نہ وہ اس کی خبر تمھیں دیتا۔ اب کوئی اور قرآن میں کہاں سے لاؤں، یا اس میں اپنے پاس سے تبدیلی کیسے کروں؟ یہ بات میرے امکان اور میرے بس ہی میں نہیں۔