وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں اپنے پہلو پر یا بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہر حالت میں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے وہ تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسے گزر جاتا ہے جیسے اس نے تکلیف کے وقت [١٨] ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ ایسے حد سے بڑھے ہوئے لوگوں کو وہی کام اچھے معلوم ہونے لگتے ہیں جو وہ کرتے ہیں
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ....: یہاں ’’الْاِنْسَانَ ‘‘ سے مراد اکثر انسان ہیں، جن میں کفار و مشرکین بھی شامل ہیں، کیونکہ انھی کا ذکر پہلے اور بعد میں چل رہا ہے اور وہ بھی مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتے ہیں، پھر مقصد پورا ہو جانے کے بعد سرے سے اسے بھول جاتے ہیں، بعض مومنوں کا بھی یہی حال ہے۔ یعنی انسان اس قدر عاجز و ناتواں ہے کہ جوں ہی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹتے، بیٹھتے اور کھڑے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، لیکن اس کی بے وفائی کا یہ عالم ہے کہ جوں ہی تکلیف دور ہوتی ہے اسی پہلے غرور میں بدمست ہو جاتا ہے اور اپنی مصیبت اور تکلیف سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔ انسان کی اس عادت کا کئی آیات میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ دیکھیے حم السجدہ (۵۱)، زمر ( ۴۹) اور ہود (۱۰، ۱۱)۔ حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں انھی لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جن کا دعا کا طریقہ یہ ہے، البتہ وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور اپنی توفیقِ خاص سے نوازا ہے وہ ان میں شامل نہیں، کیونکہ وہ سختی اور نرمی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو پکارتے اور اسے یاد رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهٗ كُلَّهٗ لَهٗ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذٰلِكَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهٗ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهٗ، وَ إِنْ أَصَابَتْهٗ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهٗ)) [ مسلم، الزہد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ۲۹۹۹، عن صہیب رضی اللّٰہ عنہ ] ’’مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا ہر کام ہی خیر ہے اور یہ چیز (کامل) مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اگر اسے کوئی خوشی حاصل ہو تو شکر کرتا ہے، پس وہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، سو وہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔‘‘ ’’مُسْرِفِيْنَ‘‘ (حد سے بڑھنے والوں) کو یہ نعمت حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس آیت میں مذکور لوگوں کی طرح ان کے لیے ان کے اعمال بد ہی خوش نما بنا دیے گئے ہیں۔رہی یہ بات کہ ان کے لیے ان کے اعمال کس نے خوش نما بنائے ہیں، آیت میں اس کا ذکر نہیں، کیونکہ وہ کئی چیزیں ہو سکتی ہیں : (1) شیطان، فرمایا : ﴿ وَ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ ﴾ [ النمل : ۲۴ ] ’’اور شیطان نے ان کے لیے ان کے عمل خوش نما بنا دیے۔‘‘ (2) نفس، فرمایا : ﴿ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ ﴾ [ یوسف : ۵۳ ] ’’بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے۔‘‘ ہمارے لیے اس میں سبق یہ ہے کہ ہمیں مصیبت دور ہونے پر بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور دعا میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ سَرَّهٗ أَنْ يَّسْتَجِيْبَ اللّٰهُ لَهٗ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكُرَبِ فَلْيُكْثِرِ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ))[ ترمذی، کتاب الدعوات، باب أن دعوۃ المسلم مستجابۃ : ۳۳۸۲، و حسنہ الألباني ] ’’جسے پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں اور مصیبتوں میں اس کی دعا قبول فرمائے تو وہ خوش حالی میں کثرت سے دعا کیا کرے۔‘‘