سورة التوبہ - آیت 92

وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور نہ ہی ان لوگوں پر کچھ الزام ہے جو آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں سواری مہیا کریں تو آپ نے کہا کہ : ’’میرے پاس تمہارے لئے سواری کا کوئی بندوبست نہیں‘‘ تو وہ واپس چلے گئے اور اس غم سے ان کی آنکھیں اشکبار تھیں کہ ان کے پاس [١٠٥] خرچ کرنے کو کچھ نہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَلَا عَلَى الَّذِيْنَ اِذَا مَا اَتَوْكَ....: یہ مخلص مسلمانوں کے ایک اور گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں نہیں تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواریاں لینے کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میرے پاس تمھیں سواری دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس پر انھیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ رونے لگے اور ایسے روئے گویا آنکھیں پانی کے چشمے بن گئیں، جن سے آنسوؤں کی نالیاں رواں ہوں کہ ہمارے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں کہ ہم جہاد میں شریک ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی گناہ سے بری قرار دیا کہ ان لوگوں پر اعتراض کا کوئی راستہ اور کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ محسنین ہیں۔ 2۔ اس آیت پر ان لوگوں کو خلوص کے ساتھ غور کرنا چاہیے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا و آخرت کے خزانوں کے مالک اور مختار کل ہیں۔ یہ حضرات آپ کے اس فرمان کا ترجمہ کیا کریں گے : ﴿لَا اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ﴾ ’’میں وہ چیز نہیں پاتا جس پر تمھیں سوار کروں۔‘‘ ان بھائیوں کو اللہ کا خوف کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مالک الملک اور مختار کل کہہ کر اللہ کا شریک بنانے سے توبہ کرنی چاہیے، کیونکہ یہ گناہ اللہ کے ہاں کسی صورت قابل معافی نہیں ہے۔