سورة البقرة - آیت 113

وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہود یہ کہتے ہیں کہ عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں اور عیسائی یہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے پاس کچھ نہیں۔ حالانکہ وہ (دونوں) کتاب [١٣١] پڑھتے ہیں۔ ایسی ہی باتیں وہ لوگ بھی (دوسروں کو) کہتے ہیں جو خود کچھ نہیں جانتے۔[١٣٢] سو اللہ ہی قیامت کے دن ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ [١٣٣] اختلاف رکھتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ تورات میں مسیح علیہ السلام کی نبوت کا ذکر موجود تھا اور یہودی اسے پڑھتے اور جانتے تھے، اسی طرح انجیل میں موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا ذکر اور تورات پر عمل کا حکم موجود تھا اور نصاریٰ اسے پڑھتے اور جانتے تھے، مگر تعصب اور ضد میں آ کر ہر ایک نے دوسرے کے بارے میں کہا کہ وہ سرے سے کسی بھی چیز پر نہیں ۔ افسوس ! مسلمان بھی جب فرقوں میں تقسیم ہوئے تو ہر ایک نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ دوسرے فرقے کی بات قرآن وسنت کے مطابق ہے، اسے غلط اور اپنے فرقے کی بات کو غلط جانتے ہوئے بھی درست قرار دیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ لَا يَعْلَمُوْنَ: علم سے مراد وحی کا علم ہے اور اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جو وحی الٰہی کا کچھ علم نہیں رکھتے تھے، ان کے علاوہ وہ تمام لوگ جو آسمانی ہدایت سے بے بہرہ ہیں ، اس میں شامل ہیں ، مثلاً دہریے اور بت پرست وغیرہ، ان سب نے بھی یہود و نصاریٰ کی طرح اپنے سوا سب کو سرے ہی سے غلط قرار دیا۔ فرمایا، اب ان کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا۔