يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو اللہ تمہیں قوت [٣٠] تمیز عطا کرے گا، تم سے تمہاری برائیاں دور کردے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا ہی فضل کرنے والا ہے
1۔ اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا....: مال اور اولاد کی آزمائش سے خبردار کرنے کے بعد اب تقویٰ کی تعلیم دی ہے اور اس کے فوائد بیان کیے ہیں، تقویٰ کا مادہ ’’و ق ی‘‘ ہے اور یہ اسم مصدر ہے۔ ’’ تَتَّقُوا ‘‘ باب افتعال سے ہے، اس کا معنی بچنا ہے، آدمی اسی چیز سے بچتا ہے جس سے ڈرتا ہو، اس لیے اس کا معنی ڈرنا بھی کر لیا جاتا ہے۔ ’’فَرْقٌ‘‘ اور ’’فُرْقَانٌ‘‘ مصدر ہیں، دونوں کا ایک ہی معنی ہے، مگر ’’فُرْقَانًا ‘‘کے حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہو گیا، یعنی اگر تم ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی نافرمانی سے بچتے رہو گے، خواہ کوئی دوسرا تمھارے پاس ہو یا نہ ہو تو تمھیں چار نعمتیں عطا ہوں گی، پہلی یہ کہ تم میں حق اور باطل کو پہچاننے اور ان کے درمیان فرق کرنے کی بہت بڑی قوت پیدا ہو جائے گی اور اس قوت کی بدولت اللہ تعالیٰ تمھیں کسی بھی شبہے، شک یا تذبذب کا شکار ہونے کے بجائے واضح طور پر ہر کام کے درست یا نا درست ہونے کی پہچان اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کی قوت عطا کرے گا، تم آسانی سے حق کا فیصلہ کرکے اس پر عمل کر سکو گے۔ دیکھیے سورۂ حدید (۲۸) اسی طرح وہ تمھیں فتح و نصرت عطا کرکے تمھارے اور تمھارے دشمنوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ دوسری یہ کہ وہ تم سے تمھاری برائیاں دور کر دے گا اور تیسری یہ کہ قیامت کے دن وہ تمھارے گناہ بخش دے گا۔ 2۔ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ: یہ چوتھی نعمت ہے۔ فضل کا معنی زائد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں اتنا ہی بدلہ نہیں دے گا جتنا تم عمل کر وگے بلکہ اس سے کہیں زیادہ دے گا، کیونکہ وہ بہت زائد حتیٰ کہ تمھاری سوچ سے بھی بہت زائد عطیہ دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ﴾ [ السجدۃ : ۱۷ ] ’’پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔‘‘