سورة الانفال - آیت 22

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یقیناً اللہ کے ہاں بدترین قسم کے جانور [٢١] وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کچھ کام نہیں لیتے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ....: ’’ الدَّوَآبِّ ‘‘ ’’دَابَّةٌ‘‘ کی جمع ہے، ’’دَبَّ يَدِبُّ (ض)‘‘ زمین پر چلنا۔ انسان کو ’’الدَّوَآبِّ ‘‘ میں اس لیے شمار کیا کہ کتب لغہ میں ہر جاندار کو دابہ کہہ لیتے ہیں۔ مصباح میں ہے ’’دَابَّةٌ‘‘ زمین کا ہر جاندار، خواہ سمجھ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، یعنی کفار و منافقین جو کان سے اچھی بات نہ سنیں، زبان سے اچھی بات نہ نکالیں اور اللہ کی دی ہوئی عقل سے کام نہ لیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام جانوروں سے بدتر ہیں، کیونکہ جانور تو اپنے فطری تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اور ان لوگوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے، مگر یہ اس غرض کو بھی پورا نہیں کرتے۔ یہاں پہلے بہرے ہونے کا ذکر ہے، پھر گونگے ہونے کا، کیونکہ حق سن کر ہی اس کی تائید و تبلیغ زبان سے ہوتی ہے، پھر بے عقل ہونے کا، کیونکہ بعض بہرے اور گونگے عقل سے حق کو سمجھتے اور اسے قبول کر لیتے ہیں، مگر یہ لوگ تینوں چیزوں سے خالی ہیں۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۷۹) اور فرقان (۴۴)۔