سورة الاعراف - آیت 176

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں سے اس (کے درجات) کو بلند کردیتے مگر وہ تو پستی کی طرف جھک گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ ایسے شخص کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تو بھی ہانپتا ہے اور نہ کرے تو بھی ہانپتا ہے [١٧٧۔ الف] یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا۔ آپ ایسے قصے ان سے بیان کرتے رہئے شاید یہ لوگ کچھ غور و فکر کریں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا....: اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیات پر عمل کی توفیق دے کر صالحین و ابرار کے آسمان پر بلند کر دیتے، مگر وہ زمین اور پستی (دنیا کے حقیر سازوسامان) کی طرف چمٹ ہی گیا اور اپنی خواہش نفس کے پیچھے لگ کر ہر وقت دنیا کی طلب میں لگ گیا، تو اس کی مثال ہر وقت زبان نکال کر ہانپتے ہوئے کتے کے ساتھ دی گئی۔ مفسرین میں سے بعض نے گزشتہ امتوں میں سے اس کا نام بلعم بن باعورا بتایا ہے اور بعض نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعض اشخاص، مثلاً امیہ بن صلت وغیرہ کا نام ذکر کیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا اور ان میں یہ اشخاص بھی شامل ہیں۔ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ....: ’’ لَهَثٌ‘‘ تھکاوٹ یا پیاس اور گرمی کی وجہ سے زبان باہر نکال کر ہانپنے کو کہتے ہیں۔ دوسرے جانوروں پر اگر حملہ کیا جائے تو دوڑنے اور پیاس اور گرمی کی وجہ سے وہ ہانپنے لگتے ہیں، لیکن اگر انھیں کچھ نہ کہا جائے تو آرام سے بیٹھے رہتے ہیں، زبان باہر نکالے ہوئے ہانپتے نہیں، مگر کتا ایسا جانور ہے کہ تازہ ہوا سہولت کے ساتھ نہ اندر کھینچ سکتا ہے نہ گرم ہوا باہر نکال سکتا ہے، اس لیے کوئی اس پر حملہ کرے اور دوڑنے کی وجہ سے اسے سانس چڑھا ہو یا وہ آرام سے بیٹھا ہو، ہر حال میں اس کی زبان لٹکی ہوئی ہو گی اور وہ ہانپ رہا ہو گا۔ دنیا کی حرص کی وجہ سے اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے کی مثال اس کتے کی سی ہے۔ کیونکہ اگر وہ اپنے علم کے مطابق اللہ کی آیات پر ایمان لاتا اور عمل کرتا تو اپنی ضروریات اور خواہشات کو اللہ اور اس کے رسول کے مطابق حلال تک محدود کرکے باقی وقت ہر قسم کی حرص اور فکر سے آزاد ہو کر اللہ کی بندگی اور دین کی تعلیم و تعلم اور اس پر عمل میں صرف کرتا تو نہایت چین اور اطمینان کے ساتھ حیاتِ طیبہ بسر کرتا۔ مگر اسے دنیا کی ضرورت تھی یا نہ تھی، حلال وحرام ہر طریقے سے ہر وقت دنیا کے حصول کی جدوجہد میں لگا رہا، اس کتے کی طرح جس پر حملہ ہو یا نہ ہو، زبان نکالے ہانپتا رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہمارے لائق بری مثال نہیں ہے، وہ شخص جو اپنا دیا ہوا ہبہ واپس لیتا ہے اس کتے کی طرح ہے جو دوبارہ اپنی قے چاٹ لیتا ہے۔‘‘ [بخاری، الہبۃ و فضلھا، باب لا یحل لأحد أن یرجع فی ہبتہ : ۲۶۲۲، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما ]