وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ
(اے نبی) آپ انہیں اس شخص [١٧٧] کا حال سنائیے جسے ہم نے اپنی نشانیاں دی تھیں لیکن وہ ان (کی پابندی) سے نکل بھاگا۔ پھر شیطان اس کے پیچھے پڑگیا۔ چنانچہ وہ گمراہ ہوگیا
وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْ....: ’’سَلَخَ (ن، ف )‘‘ ’’کھال اتارنا۔‘‘ ’’مَسْلُوْخٌ‘‘ وہ بکری جس کی کھال اتار لی گئی۔ ’’اِنْسَلَخَ الْحَيَّةُ‘‘ ’’سانپ اپنی کینچلی سے نکل گیا۔‘‘ (قاموس) ان الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا قصہ یہاں عبرت کے لیے بیان کیا جا رہا ہے وہ ضرور کوئی خاص شخص ہے، لیکن قرآن اور صحیح حدیث میں نہ تو اس کے نام کی تصریح ہے اور نہ ہی زمانے کا ذکر ہے۔ صاحب المنار فرماتے ہیں کہ یہ ایک مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری جانے والی آیات کو جھٹلانے والوں کی بیان فرمائی۔ یہ اس شخص کی مثال ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا علم عطا فرمایا، وہ ان کا عالم، ان کے قواعد کا حافظ اور اس کے احکام کو بیان کرنے اور بحث کرکے ثابت کرنے کے لائق ہو گیا مگر شیطان نے اسے اپنے پیچھے ایسا لگایا کہ وہ اس علم پر عامل نہ ہوا، بلکہ اس کا عمل اپنے علم کے سراسر مخالف رہا تو پھر اس سے ان آیات کا علم بھی چھن گیا، کیونکہ جس علم پر عمل نہ ہو وہ تھوڑی مدت ہی میں ختم ہو جاتا ہے۔ تو یہ شخص اس سانپ کی طرح ہو گیا جو اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے اور اسے اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے، یا اپنے علم و عمل میں مخالفت کی وجہ سے اس شخص کی طرح ہو گیا جو اپنے علم سے نکل جاتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے، جیسے کوئی شخص اپنے پرانے کپڑے اتار دیتا ہے اور سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے کہ ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں رہتا۔ مثال کا خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے رسول پر نازل کردہ آیات کو جھٹلانے والے لوگ اس عالم کی طرح ہیں جو اپنے علم کے پھل سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہو گیا ہو، کیونکہ دونوں ہی نے دلائل و آیات میں اخلاص کے ساتھ عبرت حاصل کرنے کے لیے غور نہیں کیا۔