سورة الاعراف - آیت 163

وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھئے جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ وہ لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ ہفتہ کے دن تو مچھلیاں بلند ہوہو کر پانی پر ظاہر ہوتی تھیں اور ہفتہ کے علاوہ باقی دنوں میں غائب رہتی تھیں۔ اسی طرح ہم نے انہیں ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے آزمائش [١٦٧] میں ڈال رکھا تھا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ سْـَٔلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ....: اس واقعہ کا انداز بیان پچھلی آیات سے ذرا مختلف ہے، فرمایا، ان سے اس بستی کے بارے میں پوچھیے، کیونکہ تورات یا کسی کتاب میں اس کا ذکر نہیں تھا مگر یہودیوں کو یہ واقعہ خوب معلوم تھا اور وہ اپنے دوسرے عیوب کی طرح اسے بھی چھپاتے تھے۔ جب آپ پوچھیں گے تو انھیں ضرور سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ اس واقعہ کی خبر آپ تک کیسے پہنچی، وحی کے سوا کوئی اور ذریعہ اس کے لیے ممکن نہیں، اس لیے لامحالہ انھیں آپ کے نبی الٰہی ہونے کی ایک اور شہادت مل جائے گی ۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہ بتایا ہے کہ وہ بستی سمندر کے کنارے آباد تھی اور نصیحت کے لیے اتنا بتانا ہی کافی تھا۔ البتہ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ اس قریہ (شہر) سے مراد ’’ ایلات‘‘ ہے جو بحر قلزم کے ساحل پر مدین اور طور کے درمیان واقع ہے۔یہ شہر بحر قلزم کے اندر خلیج عقبہ میں اس جگہ واقع تھا جہاں اب اردن کی بندرگاہ عقبہ پائی جاتی ہے، اس کے قریب خلیج عقبہ ہی میں یہودیوں نے جو نئی بندرگاہ بنائی ہے اس کا نام انھوں نے ’’ایلات‘‘ ہی رکھا ہے۔ مگر کسی یقینی دلیل کے بغیر اس شہر کی تعیین ممکن نہیں۔ اِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہفتے کے دن ان کے لیے شکار جائز نہیں تھا۔ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ....: ’’حِيْتَانٌ ‘‘ یہ ’’حُوْتٌ‘‘ کی جمع ہے، یعنی بڑی مچھلی۔ دوسری جگہ یونس علیہ السلام کے متعلق فرمایا : ﴿ فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ ﴾ [ الصافات : ۱۴۲ ] ’’پس مچھلی نے اسے نگل لیا۔‘‘ (راغب) ’’ شُرَّعًا ‘‘ ’’شَارِعٌ ‘‘ کی جمع ہے، یعنی پانی سے سر نکالے ہوئے آ جاتیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ انھیں حکم تو یہ تھا کہ اس دن کی تعظیم کریں اور اس میں شکار وغیرہ سے باز رہیں مگر انھوں نے فریب اور حیلہ سازی سے مچھلیاں پکڑنا شروع کر دیا، چنانچہ انھوں نے سمندر کے کنارے بڑے بڑے حوض کھود لیے، ہفتہ کے دن مچھلیاں پانی کے اوپر آتیں تو ان حوضوں میں داخل ہو جاتیں، وہ سمندر کی طرف سے ان کا راستہ بند کر دیتے اور اتوار کے دن ان کو پکڑ لیتے، یا جمعہ کے دن سمندر میں جال نصب کر دیتے اور ہفتہ کے دن ان میں پھنسی ہوئی مچھلیوں کو اتوار کے دن پکڑ لیتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی حرام کام کا ارتکاب کرنے کے لیے حیلہ کرنا حرام ہے۔ ہاں جائز کام کے لیے حیلہ بھی جائز ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام ابوعبد اللہ بن بطہ رحمہ اللہ کی سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل فرمایا ہے : (( لَا تَرْتَكِبُوْا مَا ارْتَكَبَتِ الْيَهُوْدُ فَتَسْتَحِلُّوْا مَحَارِمَ اللّٰهِ بِأَدْنَی الْحِيَلِ)) ’’وہ کام مت کرو جو یہود نے کیا، ورنہ تم اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو معمولی حیلوں سے حلال کر لو گے۔‘‘ اور فرمایا کہ یہ سند جید ہے۔ مگر افسوس کہ بعض مسلمان فقہاء نے اسلام کے فرائض سے جان چھڑانے کے لیے کئی حیلے ایجاد کیے، مثلاً رمضان کے آخر میں دو رکعتوں کا نام قضائے عمری رکھ کر پچھلی نمازیں معاف ہونے کا فتویٰ دے دیا اور صاف لکھ دیا کہ زکوٰۃ اور شفعہ سے جان چھڑانے کے لیے حیلہ حرام تو کجا مکروہ بھی نہیں۔ قتل کے قصاص کو ختم کرنے کے لیے تیز دھار آلے سے قتل کی شرط لگا دی اور کہا کہ اگر کوئی جان بوجھ کر بھاری سے بھاری پتھر یا ہتھوڑے کے ساتھ قتل کر دے، یا ڈبو کر مار دے، یا برف کے بلاک میں رکھ کر، یا کسی چار دیواری میں بھوکا پیاسا رکھ کر مار دے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا، زیادہ سے زیادہ دیت لے سکتے ہیں۔ زنا کو حلال کرنے کے لیے اجرت پر عورت لا کر زنا کرنے سے حد ختم کر دی۔ شراب حلال کرنے کے لیے صرف انگور اور کھجور کی شراب کو حرام اور باقی سب کو حلال کہہ دیا۔ چور کی حد چوری کا جرم شہادتوں سے ثابت ہونے کے بعد صرف اتنی بات سے ختم کر دی کہ چور مسروقہ مال کا مالک ہونے کا دعویٰ کر دے، خواہ اس کی کوئی دلیل بھی پیش نہ کرے۔ بتائیے! بلا دلیل دعویٰ کرنے سے ہاتھ کٹنے سے بچ جائے تو کون سا چور یہ دعویٰ نہیں کرے گا۔ سود کو دار الحرب میں اور بہت سی خود ساختہ صورتوں میں حلال کر دیا۔ بعض نے جو شخص نماز پڑھے اور جو نہ پڑھے دونوں کا ایمان برابر قرار دے دیا۔ جب اتنے بڑے گناہ حیلے سے جائز ہو گئے تو ان کے مرتکب بھی صالح اور عادل ٹھہرے اور حکومت اور قضاء کے اہل قرار دیے گئے۔ ایسے حکام، ایسی عدالتوں اور ایسے شاہدوں اور قاضیوں کے فیصلوں کا نتیجہ اہل کتاب ہی کی طرح پہلے شدید بدعملی، پھر انتہائی ذلت کی صورت میں سب کے سامنے ہے، اس کا علاج یہی ہے کہ مسلمان ان ’’الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ ‘‘ کا طریقہ چھوڑ کر کتاب و سنت کو بلاحیل و حجت مضبوطی سے تھام لیں تو اللہ تعالیٰ انھیں پھر وہی عزت و کرامت عطا فرمائے گا جو اس نے پہلے عطا فرمائی تھی۔ كَذٰلِكَ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ: اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو حلال روزی نہ ملے اور حرام آسانی سے ملے تو لازم ہے کہ وہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھے، اگر حرام کا مرتکب ہو جائے گا تو وہ روزی وبال ہو گی اور اگر صبر کرے گا اور حرام سے بچ کر امتحان میں کامیاب ہو جائے گا تو انعام ملے گا۔