سورة الاعراف - آیت 152

إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ) جن لوگوں نے بچھڑے کو الٰہ بنایا تھا ان پر ضرور ان کے پروردگار کا غضب [١٤٩] نازل ہوگا اور وہ اس دنیا کی زندگی میں رسوا ہوں گے۔ اور (اللہ پر) افترا کرنے والوں کو ہم ایسے ہی سزا دیا کرتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا: اللہ تعالیٰ کا ان پر غضب یہ ہوا کہ جب تک ان میں سے بعض نے بعض کو قتل نہیں کیا ان کی توبہ قبول نہیں ہوئی۔ (دیکھیے بقرہ : ۵۴) بنی اسرائیل میں جس طرح قتل عمد کی حد قتل تھی اسی طرح شرک کی حد بھی قتل ہی تھی اور یہ اس ’’اِصْرٌ‘‘ یعنی بوجھ میں شامل تھی جو پہلی امتوں پر ڈالے گئے۔ ہماری امت میں یہ تخفیف ہوئی کہ شرک کی حد اب قتل نہیں بلکہ صدق دل سے توبہ ہی سے معافی ہو جاتی ہے۔ البتہ اگر شرک پر اصرار کرے تو وہ مرتد ہے اور اسے قتل کیا جائے گا۔ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِيْنَ: ابو قلابہ رحمہ اللہ نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا : ’’قیامت تک ہر مفتری کی یہی سزا ہے (خواہ دین میں شرکیہ کام ایجاد کرے یا کوئی اور)۔‘‘ کیونکہ کوئی بھی نئی چیز دین میں داخل کرنے والا مفتری ہے اور بدعت بدترین جھوٹ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے لگایا جاتا ہے۔ امام مالک اور سفیان بن عیینہ رحمھما اللہ نے کہا ہے کہ ’’مفترین‘‘ کے معنی ’’مبتدعین‘‘ یعنی اہل بدعت کے ہیں اور ہر بدعتی قیامت تک ذلیل و خوار ہو تا رہے گا۔ (قرطبی، بغوی)