وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ
موسیٰ کے (طور پر جانے کے) بعد اس کی قوم نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا جسم (پتلا) بنایا جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ تو ان سے کوئی بات کرتا ہے اور نہ ہی ان کو راستہ دکھاسکتا ہے پھر بھی انہوں نے اسے (الٰہ) بنالیا
1۔ وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى....: یہی قصہ سورۂ طٰہٰ میں بھی بیان ہوا ہے۔ ’’مِنْ حُلِيِّهِمْ ‘‘ (اپنے زیوروں سے) یہ الفاظ صراحت کر رہے ہیں کہ وہ زیورات بنی اسرائیل کے اپنے تھے، اس لیے بائبل اور ہماری تفسیروں کی اسرائیلی روایات میں جو کہا گیا ہے کہ وہ زیور قبطیوں کے تھے اور بنی اسرائیل نے ان سے عاریتًا لیے تھے وہ درست نہیں، مزید تفصیل سورۂ طٰہٰ (۸۷) میں دیکھیں۔ جب موسیٰ علیہ السلام طور پر تشریف لے گئے تو ان میں سے ایک شخص سامری نے ان سے یہ زیورات لے لیے اور انھیں آگ میں پگھلا کر بچھڑے کی شکل کا ایک مجسمہ بنا ڈالا، جس سے گائے کی آواز نکلتی تھی، اس آیت میں اس مجسمے کے بنانے کو بنی اسرائیل کی طرف منسوب کیاگیا ہے، کیونکہ سامری نے اسے ان کی اجازت اور رضا مندی سے بنایا تھا اور وہ اپنے لیے اس قسم کے ایک معبود کی خواہش رکھتے تھے۔ (ابن کثیر) تفسیر ثنائی میں ہے کہ موجودہ تورات کی دوسری کتاب (خروج) کے بتیسویں باب میں جو لکھا ہے کہ ہارون علیہ السلام نے خود ہی ان کو بچھڑا بنا دیا تھا، یہ صریح غلط ہے، شانِ نبوت اور شرک اجتماع ضدین ہے۔ عیسائیو! قرآن کے ’’مُهَيْمِنٌ عَلَي التَّوْرَاةِ‘‘ ہونے میں اب بھی شک کرو گے؟ ( مُهَيْمِنٌ کا معنی سمجھنے کے لیے ملاحظہ کیجیے سورۂ مائدہ : ۴۸ کے حواشی) مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا وہ بچھڑا واقعی گوشت پوست اور خون کا بن گیا تھا اور اس میں جان پڑ گئی تھی، یا وہ محض ایک مجسمہ رہا، جس میں ہوا داخل ہوتی یا داخل کی جاتی تو اس سے بچھڑے کی سی آواز نکلتی تھی؟ جو مفسرین اس کے واقعی جاندار بچھڑا ہونے کے قائل ہیں وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے پاس گھوڑی پر سوار آئے، سامری نے انھیں دیکھ لیا اور ان کی گھوڑی کے پاؤں تلے کی کچھ مٹی لے لی اور انھوں نے سورۂ طٰہٰ کی آیت (۹۶) ﴿ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ ﴾ کے یہی معنی کیے ہیں، چنانچہ اس مٹی کو جب انھوں نے بچھڑے کے اس مجسمے پر ڈالا تو وہ سچ مچ کا بچھڑا بن گیا، لیکن یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے۔ نیز دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۸۸ تا ۹۶)۔ 2۔ اَلَمْ يَرَوْا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَ لَا يَهْدِيْهِمْ سَبِيْلًا: اللہ تعالیٰ نے تو نظر نہ آنے کے باوجود موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور ہدایت کا راستہ بھی بتایا، یہ عجیب معبود ہے کہ سامنے ہونے کے باوجود نہ بات کر سکتا ہے نہ ہدایت دے سکتا ہے، پھر وہ معبود کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر بالفرض اس میں جان بھی پڑ گئی ہے تو وہ ایک عاجز حیوان ہے، اس جیسی بلکہ اس سے بہتر بے شمار گائیں ڈنڈے کھاتی پھرتی ہیں اور زنجیروں میں بندھی ہوئی بے بس ہو کر دودھ دے رہی ہیں۔ معلوم ہوا معبود کے لیے کلام کرنے والا اور ہدایت دینے والا ہونا ضروری ہے۔ ’’کلام کرنے والا‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم دے سکے، منع کر سکے اور ’’ہدایت دینے والا‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہدایت دینے پر قدرت ہو۔