وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
اور اے آدم! تو اور تیری بیوی دونوں [١٦] اس جنت میں رہو اور جہاں سے جی چاہے کھاؤ، مگر اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔
(12) آدم و حوا کی یہ پوری کہانی سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے چونکہ قرآن کریم تئیس سال میں نازل ہو اہے، اور اس مدت میں اطراف عالم سے مختلف وفود آتے رہے، اسی لیے قرآن نے ایک ہی واقعہ کو کئی مقام پر مختلف انداز میں بیان کیا ہے، تاکہ سننے والےاس سے حسب موقع عبرت حاصل کرتے رہیں۔ اللہ نے ابلیس کو جنت سے یا فرشتوں کے زمرے سے نکال دیا، اور آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی حوا کے لیے جنت کی تمام نعمتوں اور پھلوں کو حلال بنا دیا، صرف ایک درخت کے کھانے سے انہیں روک دیا، اور تنبیہ کردی کہ دیکھو اگر اس کے قریب جاؤ گے تو اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہوجاؤ گے، شیطان نے جب انہیں اس حال میں دیکھا تو اس کے حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور ان کے ساتھ مکرو فریب کی سوچ لی، تاکہ وہ جب نعمتوں سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔، اور جو خوبصورت لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں ان سے چھن جائے اس نے اللہ کے خلاف افتراپردازی کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ اسے کھالوگے تو تم فرشتے بن جاؤ گے، پھر کھا نے پینے کی محتاجی نہیں رہے گی یا تمہیں موت لا حق نہیں ہوگی اور جنت میں ہمیشہ کے لیے رہوگے، اور ابلیس نے انہیں اپنی صداقت کا یقین دلانے کے لیے ذات باری تعالیٰ کی قسم کھاکر کہا کہ میں تم دونوں کا انتہائی خیر خواہ ہوں جبھی یہ راز تمہیں بتا دیا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ابلیس نے اللہ کی قسم کھا کر آدم وحوا کو دھوکہ دیا، اس لیے کہ مؤمن اللہ کے نام سے دھوکہ کھا جاتا ہے۔