وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ
اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اسے [١٢٦] مت کھاؤ کیونکہ یہ گناہ کی بات ہے۔ بلاشبہ شیطان تو اپنے دوستوں کے دلوں میں (شکوک و اعتراضات) القاء کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے [١٢٧] جھگڑتے رہیں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم بھی مشرک [١٢٨] ہی ہوئے
(116) اس آیت کے شان نزول میں اصحاب سنن نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کچھ لوگ نبی کریم (ﷺ) کے پاس آئے اور کہا کہ جس جانور کو ہم قتل کرتے ہیں ( یعنی ذبح کرتے ہیں) اسے تو کھاتے ہیں۔ اور جسے اللہ قتل کرتا ہے (مرجاتا ہے) اسے نہیں کھاتے تو İ فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِĬسے İ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَĬ تک نازل ہوئی نسائی میں ہے کہ مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ جھگڑا کیا کہ اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور کو تم لوگ نہیں کھاتے، اور جو خود ذبح کرتے ہو اسے کھاتے ہو، انتہی۔ جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا جائے اس کی حلت کے بارے میں علماء کے تین مشہور اقوال ہیں : پہلا قول : داؤد ظاہری، ابوثور، ابن عمر (رض)، نافع، شعبی، ابن سیرین اور ایک روایت کے مطابق مالک اور احمد کا ہے کہ جو جانور بسم اللہ پڑھ کر ذبح نہیں کیا گیا ہے، اس کا کھانا جا ئز نہیں ہے، چاہے قصدا نہ پڑھا ہو یا بھول گیا ہو : 1۔ ان حضرت نے اسی آیت کے ظاہری الفاظ سے استدلال کیا ہے، 2۔ اور سورۃ مائدہ کی آیت (4) سے کہ جس میں شکار کئے ہوئے جانور کے کھانے کا حکم بیان کیا گیا ہے، İ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِĬ کہ جن جانوروں کو شکاری جانوروں نے تمہارے لیے پکڑ رکھا ہو انہیں کھاؤ، اور اس پر بسم اللہ پرھ لیا کرو۔ 3۔ اور ان احادیث سے بھی استدلال کیا ہے جن میں ذبح اور شکار کرتے وقت بسم اللہ کہنے کا حکم آیا ہے، جیسا کہ صحیحین میں مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے عدی بن حاتم اور ابو ثعلبہ (رض) سے کہا : اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتے کو بسم اللہ کہہ کر چھوڑ دو تو اس کا شکار کھاؤ۔ اور صحیحین ہی میں رافع بن خدیج (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جو آلہ ذبح کرتے وقت خون نکال دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھاؤ، اور دانت اور ناخن سے ذبح نہ کرو، اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے جنوں سے فرمایا " تمہارے لیے ہر وہ ہڈی کھانا جائز ہے جس پر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو، اور صحیحین میں جندب بجلی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا وہ ایک دوسرا جانور ذبح کرے۔ اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہیں کیا ہے وہ بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے اور حضرت عائشہ (رض) کی حدیث ہے کچھ لوگوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کہ لوگ ہمیں گوشت دیتے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہا تھا کہ نہیں، تو آپ نے فرمایا "بسم اللہ کہو، اور کھاؤ۔ یعنی صحابہ کرام جانتے تھے کہ ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہنا ضروری ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہنا مسلمانوں کے لیے شرط نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، اس لیے کہ اگر کوئی مسلمان قصدا یا بھول کر بسم اللہ چھوڑ دیتا ہے تو کوئی نقصان کی بات نہیں ہے یہ قول امام شافعی اور ان کے اصحاب کا ہے، اور ایک روایت کے مطابق امام مالک اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے، ابن عباس، ابو ہریرہ اور عطاء سے بھی یہی مروی ہے، ان حضرات نے آیت کریمہİ وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌĬ کو غیر اللہ کے لیے ذبح کئے گئے جانور پر محمول کیا ہے، اس لیے کہ فسق وہی جانور ہوگا جسے غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہے ، ان کے نزدیک اس مفہوم کی تائید بعد میں آنے والی آیت ؛ İ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِĬسے ہوتی ہے، کہ وہ جانور حرام ہے جو شرک کے طور پر غیر اللہ کے نام سے چھوڑا گیا ہو۔ ابن ابی حاتم نے عطاء سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ان جانوروں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہیں قریش اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے، اور ان جانوروں کے بارے میں جنہیں مجوسی ذبح کریں، اور ابوداؤد نے اپنے " مراسیل " میں صلت سدوسی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے، چاہے بسم اللہ پڑھے یا نہ پڑھے، اگر وہ نام لے گا تو صرف اللہ کا لے گا، اور اس کی تائید ( ان کے نزدیک) ابن عباس (رض) کے قول سے ہوتی ہے جسے دار قطنی نے روایت کی ہے کہ اگر مسلمان ذبح کرے اور اللہ کا نام لے تو اسے کھائے اس لیے کہ مسلمان کے اندر اللہ کے ناموں میں ایک نام ہے، اور عائشہ (رض) کی گذشتہ حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں نبی (ﷺ) نے نئے مسلمان کے دیئے ہوئے گوشت کے بارے میں فرمایا کہ تم لوگ بسم اللہ کہو اور کھاؤ، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بسم اللہ کہنا شرط ہوتا تو جب تک ذبح کرتے وقت اسے کہنے کا یقین نہ ہوجاتا آپ (ﷺ) نے ان کو کھا نے کی اجازت نہ دیتے۔ امام خطابی کہتے ہیں یہ حدیث دلیل ہے کہ بسم اللہ پڑھنا ذبیحہ کے حلال ہونے کے لیے شرط نہیں ہے، اس لیے کہ اگر شرط ہوتا تو مشکوک حالت میں ذبیحہ کا کھانا حلال نہیں ہوتا، ان حضرات نے قرآن کریم کی آیت : İ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْĬاور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے، سے بھی استدلال کیا ہے، اس لیے کہ یہ شک بہر حال باقی رہتا ہے کہ انہوں نے بسم اللہ کہا ہے یا نہیں۔ تیسرا قول امام ابو حنیفہ، ان کے اصحاب اور اسحاق بن راہو یہ کا ہے، اور امام مالک اور امام احمد کا بھی قول یہی ہے کہ اگر ذبح کرنے والا بسم اللہ کہنا بھول گیا ہے تو کوئی حرج نہیں، اور اگر قصدا بسم اللہ نہیں پڑھا ہے تو کھانا جا ئز نہیں ہوگا، علی، ابن عباس، سعید بن المسیب، عطا، طاؤس، حسن بصری، ابو مالک، ابن ابی لیلی، جعفر بن محمد اور ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کا یہی قول ہے، ان حضرات نے ابن عباس (رض) کی روایت سے استدلال کیا ہے، جسے بیہقی نے مرفوعات روایت کی ہے کہ مسلمان کا نام کافی ہے، اگر ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہنا بھول جائے تو اللہ کا نام لے اور کھا لے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عباس (رض) کا قول ہے، حدیث مرفوع نہیں ہے، البتہ ان کی دلیل قرآن کی آیت ہو سکتی ہے : İرَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا Ĭ کہ اے اللہ ! اگر ہم بھول جائیں تو ہمارا مواخذہ نہ کر"اور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے : میری امت سے غلطی اور بھول کو درگزر کردیا گیا ہے۔ (ابن ناجہ، طبرانی) امام شوکانی نے بظاہر پہلی رائے کو ترجیح دی ہے کہ اور حافظ ابن کثیر نے دوسری رائے کو، یعنی ان کے نزدیک بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے شرط نہیں، صاحب محاسن التنزیل نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے، لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اگر ذبح کرنے والے نے قصدا بسم اللہ نہیں کہا ہے تو اسے نہ کھا یا جائے، کیونکہ قرآن کریم کے ظاہری الفاظ اسی پر دلالت کرتے ہیں (کہ جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ، ایسے جانور کا کھانا فسق ہے) ہاں، اگر مسلمان ذبح کرنے والا بسم اللہ کہنا بھول گیا ہے تو قرآن و سنت میں موجود ان دلائل کے پیش نظر اس کا کھانا جا ئز ہوگا، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے امت مسلمہ سے غلطی اور بھول چوک کو درگزر کردیا ہے، اور یہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ کھانا حلال ہے تو یہ ایک الگ حکم ہے جسے مسلمان کے ذبیحہ کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیئے۔ (117) ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ وحی کی دو قسمیں ہیں : ایک اللہ کی وحی محمد (ﷺ) پر اور دوسری شیطان کی وحی اپنے ماننے والوں پر۔ ابو داؤد، ابن ماجہ ابی حاتم نے سند صحیح کے ساتھ ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ شیاطین اپنے ماننے والوں کو سکھاتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ اے مسلمانوں ! تم لوگ اللہ کے ذبح کیے ہوئے کو نہیں کھاتے، اور جسے خود ذبح کرتے ہو کھاتے ہو ؟ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا : İ وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ Ĭکہ جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھا ؤ"۔ (118) آیت کا یہ حصہ دلیل ہے کہ جو کوئی اللہ کی حرام کردہ کسی شے کو اپنی طرف سے حلال کرے گا یا کسی حلال کو حرام کرے گا، وہ مشرک ہوگا، ترمذی نے İاتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِĬ کی تفسیر میں عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ (ﷺ) ! اہل کتاب نے اپنے احبارو رہبان کی عبادت تو نہیں کی؟ تو آپ نے فرمایا کہ احبارو رہبان نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنایا، اور لوگوں نے ان کی اتباع کی یہی ان کی عبادت تھی۔