وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اور ہم نے ابراہیم کو اسحق اور یعقوب عطا کیے۔ ہر ایک کو ہم نے سیدھی راہ دکھائی اور نوح کو اس سے پیشتر ہدایت دے چکے تھے اور اس (ابراہیم) کی اولاد میں سے ہم نے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو ہدایت دی تھی اور ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں
(80) ذیل میں تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت اور ان کا مقام بیان فرمایا ہے کہ جب انہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنی پوری قوم اور ان کے معبودوں سے براءت کا اعلان کردیا، تو اللہ نے انہیں اور ان کی بیوی سارہ کو بطور جزائے خیر بڑ ھا پے میں " اسحاق " اور اسحاق کے بیٹے کی بشارت دی۔ نیز یہ بشارت دی کہ بیٹا اور پوتا دونوں نبی ہوں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ہود آیت (71) میں فرمایا ہے : کہ ہم نے سارہ کو اسحاق کی، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت دی "یعنی تم دونوں کی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ تمہارے بیٹے اسحاق کو یعقوب جیسا بیٹا عطا کرے گا، جسے دیکھ کر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، جیسا کہ اسحاق کی پیدا ئش سے تمہاری ٹھنڈی ہوئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے سورۃ مریم کی آیت (49) میں اسی کو بایں الفاظ بیان فرمایا ہے : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ابرا ہیم کے قبل نوح کو بھی ہدا یت کبری یعنی نبوت سے نوازا، اور یہ بات بھی ابرہیم کے لیے باعث شرف ہے کہ ان کے باپ نوح بھی نبی تھے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نوح اور ابراہیم (علیہ السلام) ہر دو کو ایک عظیم خصوصیت عطا کی تھی، اللہ نے جب نوح اور ان پر ایمان لانے والوں کے علاوہ سب کو غرقاب کردیا، تو زمین پر صرف ان کی ذریت باقی رہ گئی، اور ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جتنے انبیاء پیدا ہوئے سب ان کی اولاد سے تھے، انتہی۔ اس لیے اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ ومن ذریتہ " سے مراد ابراہیم کی اولاد ہے، اور لوط (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجا تھے، اس لیے ان کی ذریت میں شمار ہوئے، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ذریت ابراہیم میں شمار کیا گیا۔ حالا نکہ وہ مر یم علیہما السلام کے بطن سے بغیر باپ کے پیدا کیے گئے تھے، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ لڑکیوں کی اولاد آدمی کی ذریت میں داخل ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حسن بن علی (رض) کے بارے میں فرمایا : میرا بیٹا سردار ہوگا۔ اور جب نبی کریم (ﷺ) نے نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کرنا چاہا تو آیت کریمہ کے بمو جب حسن اور حسین کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے کہ حجاج بن یوسف نے یحیی بن معمر کو پیغام بھیجا کہ میں نے سنا ہے تم حسن وحسین کو نبی کریم (ﷺ) کی ذریت میں شمار کرتے ہو، میں نے پورا قرآن پڑھ ڈالا، کہیں بھی یہ چیز نہیں ملی تو یحیی نے کہلا بھیجا کہ کیا تم نے سورۃ انعام کی آیت نہیں پڑھی ؟ اس نے کہاں کہ ہاں، تو کہا کہ کیا اس آیت میں عیسیٰ "کو ابراہیم کی ذریت میں شمار نہیں کیا گیا ہے کہ حالانکہ ان کا باپ نہیں ہے ؟ تو اس نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ یہی وجہ کہ جب کوئی آدمی اپنی "ذریت " کے لیے وصیت کرے گا یا وقف کرے گا، یا انہیں کچھ ہبہ کرے گا تو لڑکیوں کی اولاد بھی شامل ہوگی، اس آیت کے ضمن میں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ اسماعیل کو اسحاق کے ساتھ اس لیے نہیں ذکر کیا گیا کہ یہاں مقصود انبیاء بنی اسرائیل کا ذکر ہے جو اسحاق و یعقوب کی اولاد سے تھے، اسماعیل (علیہ السلام) کے صلب سے صرف سے خاتم النبیین پیدا ہوئے جو علی الاطلاق افضل الا نبیاء تھے اور نبی کریم (ﷺ) کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہی کو حکم دیا ہے کہ وہ اقوام عرب کے خلاف شرک کی نفی پر ابر ہیم کے عمل سے حجت قائم کریں۔