سورة الانعام - آیت 31

قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَىٰ ظُهُورِهِمْ ۚ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلاشبہ جن لوگوں نے اللہ سے ملاقات (کی حقیقت) کو جھٹلایا وہ نقصان میں رہے حتیٰ کہ جب قیامت اچانک انہیں آ لے گی تو کہیں گے: افسوس اس معاملہ میں ہم سے کیسی تقصیر ہوئی۔ اس وقت وہ اپنے گناہوں کا بوجھ [٣٥] اپنی پشتوں پر لادے ہوں گے۔ دیکھو! کیسا برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائیں گے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(34) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خسارے کا حال بیان کیا ہے جو اللہ کے حضور جواب دہ ہونے اور بعث بعد الموت کا انکار کرتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر خسارہ اور گھاٹا کی بات اور کیا ہو سکتی ہے اور وہ اسی حال میں رہیں گے یہاں تک کہ جب اچانک موت انہیں آدبوچے گی، تو بلند آواز سے اپنی حسرت و ندامت کا اعلان کریں گے افسوس صد افسوس ہم دنیاوی زندگی میں تقصیر سے کام لیتے رہے اور آج حقیقی خسارہ کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے، اور اس پر مستزاد یہ ہوگا کہ وہ اپنے گناہوں کو اپنی پشت پر ڈھو رہے ہوں گے علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو ایک بد شکل انسان کی صورت دے دے، جسے کافر میدان محشر میں اپنی پیٹھ پر ڈھوئے پھرے گا، جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک تمثیل ہوجس کے ذریعہ روز قیامت کافروں اور مشرکوں کا احوال واقعی بیان کرنا مقصد ہو۔