سورة المآئدہ - آیت 118

إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اگر تو انہیں سزا دے تو وہ تیرے بندے ہی ہیں اور اگر تو انہیں معاف فرما دے۔[١٦٩] تو بلاشبہ تو غالب اور دانا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(144) یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کی مشیت میں کوئی دخل انداز نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنے بندوں کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے اس پر اعتراض کا کسی کا کوئی حق نہیں، اگر وہ عذاب دے تو اس کے بندے ہیں اور اگر معاف کردے تو یہ کسی عاجزی کے وجہ سے نہیں اور نہ اس میں کوئی قباحت ہے اس لیے کہ وہ ثواب وعقاب دونوں پر قادر ہے، اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اور نہ اس کا کوئی کام غلط قرار دیا جاسکتا ہے اسی لیے اللہ نے سورۃ انبیاء آیت :23 میں فرمایا ہے کہ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ Ĭ "اللہ سے اس کے کاموں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا، اور بندوسے ان کے کرتوتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا "اس آیت کریمہ میں نصاری سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی براءت کا اعلان بھی ہے جنہوں نے اللہ اور رسول کے بارے میں کذب بیانی سے کام لیا اور بندوں کو اللہ کا شریک اور اس کی بیوی اور بیٹا ٹھہرایا۔ حافظ ابن کثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت کی بڑی شان اور اس کے بارے میں ایک عجیب خبر ہے۔ امام احمد نے ابوذر (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ایک رات نماز پڑھی، تو ایک آیت کو صبح تک دہراتے رہے : جب صبح ہوگئی تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ اسی آیت کو پڑھتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی آپ اسی کے ساتھ رکوع کرتے رہے اور اسی کے ساتھ سجدہ کرتے رہے، تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے شفا مانگی ہے اور اس نے مجھے وہ چیز دے دی ہے، اور ان شاء اللہ وہ ہر اس آدمی کو حاصل ہوگی جو کسی کو اللہ کا شریک نہیں بنائے گا اس حدیث کو نسائی نے روایت کی ہے۔ ایک اور حدیث امام مسلم نے عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) سے روایت کی کہ نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ کے اس قول کی تلات کی : اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس قول کی بھی تلاوت کی پھر ہاتھ اٹھا یا اور کہا اے اللہ ! میری امت میری امت اور ورنے لگے تو اللہ نے فرمایا اے جبرائیل ! محمد کے پاس جاؤ (اور تیرا رب زیادہ جاننے والا ہے) اور پوچھو کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ تو جبرائیل علیہ السلام آئے اور ان سے پوچھا، تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے جو کہا تھا بتایا، (حالانکہ جبرائیل زیادہ جانتے تھے) تو اللہ نے کہا۔ اے جبرائیل ! تم محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں خوش کردیں گے اور آپ کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔