سورة المآئدہ - آیت 101

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو! ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار [١٤٩] ہوں اور اگر تم کوئی بات اس وقت پوچھتے ہو جبکہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو وہ تم پر ظاہر کردی جائے گی۔ اب تک جو ہوچکا اس سے اللہ نے درگزر کردیا ہے۔ وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ ایک تشریعی ادب کی تعلیم دی ہے، اور انہیں ایسے سوالات کے نے سے منع فرمایا ہے جن میں بظا ہر کوئی فائدہ نہ ہو اور خواہ مخواہ کی کرید سے منع کیا ہے اس لیے کہ بسا اوقات ایسے غیر ضروری سوالات کے جواب میں ایسی باتیں سننی پڑتی ہیں جن سے آدمی کو تکلیف ہوتی ہیں، روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کرام رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے غیر ضروری سوالات کرتے تھے، اور آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ذہنی تکلیف ہوتی تھی، اس آیت کریمہ میں اس قسم کے تمام سوالات سے منع کیا گیا ہے بخاری و مسلم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک بار رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) خطبہ دے رہے تھے، ایک آدمی نے پوچھا کہ میرا رب کون ہے ؟ تو آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے کہا : فلاں آدمی تو یہ آیت نازل ہوئی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ اس صحا بی کا نام عبداللہ بن حذافہ تھا۔ امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ وغیر ہم نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ جب نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے حج کی فرضیت کا اعلان کیا ہے۔ تو بعض لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا یہ حکم ہر سال کے لیے ہے؟ تو آپ خاموش رہے، ان لوگوں نے دوبارہ پوچھا کہ کیا یہ حکم ہر سال کے لیے ہے ؟ تو آپ نے کہا کہ نہیں لیکن اگر میں ہاں کہہ دیتا تو یہ حکم ہر سال کے لیے واجب ہوجاتا اور جب واجب ہوجاتا تو تم لوگ اس پر عمل نہ کرپاتے اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ صحیحین میں سعد بن وقاص (رض) سے مروی ہے کہ مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جو پہلے سے حرام نہیں تھی، اور اس کے اس سوال کرنے کی وجہ سے حرام کردی گئی ایک دوسری حدیث صحیحین میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا : میں جب تک تمہیں چھوڑے رکھوں تم لوگ بھی مجھے چھوڑے رکھو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو ان کے کثرت سوال اور انبیاء کی مخالفت نے ہلاک کیا تھا۔ (126) اللہ تعالیٰ نے غیر ضروری سوالات سے منع فرمانے کے بعد یہاں یہ بات کہی ہے کہ اگر قرآن کی کوئی آیت اترنے کے بعد تمہارے ذہنوں میں اس سے متعلق سوال آئے تو ہمارے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس کا جواب دیں گے اور آیت کی تشریح کریں گے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے یہ مفہوم بیان کیا ہے اور اس سے یہ شبہ بھی زائل ہوجاتا ہے کہ مطلق سوال سے منع کردیا گیا تھا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انقطاع وحی کے بعد کسی ایسی وحی کا نزول توبند ہوگیا جس سے سوال کرنے والوں کے تکلیف ہو، لیکن خواہ مخواہ کے سوالات کرنا اسلام میں اچھی بات نہیں مانی گئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ آدمی کے اسلام میں اچھا ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ غیر ضروری باتوں سے پر ہیز کرے۔ (ترمذی ابن ماجہ) یعنی ماضی میں جو کچھ بیان نہیں کیا ہے انہیں اللہ نے معاف کردیا ہے اگر اللہ چاہتا تو انہیں بھی بیان کرکے تم پر واجب کردیتا۔