سورة المآئدہ - آیت 66

وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اگر یہ لوگ تورات اور انجیل پر اور جو دوسری کتابیں ان پر انکے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی تھیں، ان پر عمل پیرا رہتے تو انکے اوپر سے بھی کھانے کو رزق برستا، اور پاؤں کے نیچے سے بھی ابلتا۔ [١١١] ان میں سے کچھ لوگ تو راست رو ہیں لیکن ان میں سے اکثر بدعمل ہیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

92۔ اقامت تورات و انجیل کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے احکام و حدود کو نافذ کرتے، اور نبی آخر الزماں ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے جو اوصاف ان دونوں میں مذکور ہیں ان پر ایمان لے آتے، جو ان کے اسلام میں داخل ہونے پر منتج ہوتا، اور قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان لے آتے، تو اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین سے اپنی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتا، اور روزی کے تمام اسباب مہیا کرتا اور درختوں کے پھل اور غلے زیادہ ہوجاتے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت روزی میں وسعت کا سبب ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف آیت 96 میں فرمایا ہے ، اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی کی راہ اختیار کرتے تو ہم ان کے اوپر آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ 93۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آئے، جیسے عبداللہ بن سلام، نجاشی اور سلمان الفارسی وغیرہم انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسی جماعت میں شمار کیا جو ایمان لائی اور سیدھی راہ پر گامزن ہوگئی، لیکن ان کی تعداد تھوڑی تھی، ان میں سے اکثر و بیشتر نے برے اعمال کا ارتکاب کیا، حق کو بدل دیا، اس سے اعراض کیا، اور اسلام اور مسلمانوں کی عداوت میں حد سے تجاوز کر گئے۔