سورة المآئدہ - آیت 44

إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلاشبہ ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ اسی کے مطابق اللہ کے فرمانبردار نبی ان لوگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ جو یہودی [٨٠] بن گئے تھے اور خدا پرست اور علماء بھی (اسی تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے) کیونکہ وہ اللہ کی کتاب کی حفاظت کے ذمہ دار بنائے گئے تھے اور وہ اس کے (حق ہونے کی) شہادت بھی دیتے تھے لہٰذا تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھی سے ڈرو اور میری آیات کو حقیر سے معاوضہ کی خاطر [٨١] بیچ نہ کھاؤ۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

60۔ اس آیت کریم میں یہود کی یہ حالت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے اللہ کی نازل کردہ تورات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ اس میں تحریف کی اور انبیائے کرام سے روشنی اور ہدایت حاصل کرنے کے بجائے انہیں قتل کیا۔ 61۔ یعنی وہ انبیائے کرام فیصلہ کریں گے جو موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک مبعوث ہوئے اور جو مسلمان تھے اور یہ فیصلے یہود کے ساتھ خاص ہوں گے، نیز اس زمانے کے اللہ والے اور صالح علماء فیصلے کریں گے، اور تورات کے ان احکام کی بنیاد پر فیصلے کریں گے جن کے بارے میں انہیں پورا علم ہے کہ یہ احکام تحریف سے محفوظ ہیِں، اور منسوخ بھی نہیں ہوئے ہیں۔ 62۔ حکام کو منع کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں سے نہ ڈریں، بلکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے احکام شریعت کو نافذ کریں، اور یہاں پر خطاب اگرچہ یہود کے رؤساء اور علماء کے لیے ہے، لیکن حکم عام ہے اور مسلمانوں کو بھی شامل ہے۔ 63۔ امام مسلم نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ قرآن کریم میں اس معنی کی تینوں آیتیں کفار کے بارے میں ہیں۔ ابو داود نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیتیں بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہودیوں کے بارے میں ہیں، لیکن ان میں بیان کردہ حکم مسلمانوں کو بھی شامل ہے، اس لیے کہ قرآن کریم میں بیان کردہ احکام میں ہمیشہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے خصوص سبب کا نہیں۔ یعنی اگرچہ ان میں بیان کردہ احکام کفار یا یہود کے بارے میں نازل ہوئے، لیکن وہ احکام اب مسلمانوں کو بھی شامل ہیں۔