وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ
اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا : ’’موسیٰ ! ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر ہرگز صبر نہیں کرسکتے لہٰذا ہمارے لیے اپنے رب سے ان چیزوں کے لیے دعا کرو جو زمین سے پیدا ہوتی ہیں جیسے ساگ، ترکاری، گیہوں، مسور اور پیاز (وغیرہ)۔‘‘ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں کہا : ’’کیا تم بہتر چیز کے بدلے گھٹیا چیز تبدیل کرنا چاہتے ہو؟ (یہی بات ہے تو) کسی شہر کی طرف نکل چلو، جو تم چاہتے ہو وہاں تمہیں [٧٨] مل جائے گا۔‘‘ اور (انجام کار) ان پر ذلت [٧٩] اور بدحالی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں آگئے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے لگے تھے۔ اور ان باتوں کا سبب یہ تھا کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرتے اور (حدود شریعت سے) آگے نکل نکل جاتے تھے۔
113: من و سلوی روزانہ کھا کھا کر جی بھر گیا، تو مصر کے زمانے کی چیزیں یاد آنے لگیں، اور موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں تو کھانے کے لیے سبزی، ککڑی، لہسن، پیاز اور دال چاہئے، موسیٰ نے ڈانٹ پلائی، تم کیسے لوگ ہو کہ لذیذ اور پاکیزہ کھانے چھوڑ کر گھٹیا قسم کے کھانوں کا سوال کرتے ہو، یہ چیزیں تو ہر شہر میں کثرت سے ملتی ہیں، اگر یہی تم کو چاہئے تو کسی شہر میں چلے جاؤ، یہ چیزیں اس قابل نہیں کہ انہیں تمہارے لیے اللہ سے اس چٹیل میدان میں مانگوں۔ جب بنی اسرائیل پر اللہ کی گوناگوں نعمتوں کا ذکر ہوچکا، اور اسی ضمن میں ان کی خباثتوں کا بھی ذکر آیا، تو اللہ نے ان کے کفر اور قتل انبیاء جیسے جرائم کا ذکر کر کے، ان کی تمام بد اعمالیوں کا آخری نتیجہ بیان کردیا کہ اللہ نے ان پر ہمیشہ کے لیے ذلت و مسکنت مسلط کردی، اس لیے وہ دنیا میں جب بھی رہے اور جس سرزمین پر بھی رہے، قوموں نے ان کو ذلیل کیا، اور وہ بذات خود ہمیشہ ذلیل بن کر رہے۔ اگر ان کے پاس دولت بھی آئی تو اس پر ذلت و مسکنت کی چادر پڑی رہی۔