سورة المآئدہ - آیت 11

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو! اللہ کا وہ احسان بھی یاد کرو جو اس نے تم پر کیا جب (مخالف) قوم نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تھا تو اللہ نے ان کے ہاتھوں کو تم پر اٹھنے سے روک دیا۔[٣٢] اور اللہ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

31۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کا اس کی نعمتوں پر شکر ادا کیا جائے اور اس پر مداومت برتی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اسی بات کی نصیحت کی گئی ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کئی روایتیں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت امام بخاری، عبدالرزاق، ابن جریر اور بیقہی وغیرہم نے جابر (رض) سے روایت کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک سفر میں کسی مقام پر اترے۔ لوگ درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بکھر گئے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنی تلوار درخت سے لٹکا دی، ایک دیہاتی نے اچانک آکر تلوار لے لی اور اسے سونت کر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے کہا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے فرمایا اللہ دیہاتی نے دو یا تین بار یہی کہا، اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ہر بار جواب دیا کہ اللہ آخر کار دیہاتی نے تلوار کو میان میں رکھ دیا، تو آپ نے صحابہ کرام کو آواز دی اور دیہاتی کے رویہ کی خبر دی، جو آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا، اور آپ نے اسے سزا نہیں دی۔ یہود اور مشرکین کی طرف سے بھی نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو قتل کرنے کی مختلف سازشیں ہوئیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر بار آپ کی حفاظت فرمائی۔