وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا۔[٧٣] اور (تمہارے کھانے کو) من و سلویٰ اتارا (اور کہا) یہ پاکیزہ چیزیں کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں۔ اور (دیکھو! تمہارے اسلاف نے) ہم پر تو کوئی ظلم نہ کیا تھا بلکہ وہ اپنے آپ ہی پر ظلم کرتے رہے تھے
109: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ ان کافر عمالقہ کے خلاف جہاد کریں جو بیت المقدس پر قابض ہیں تو انہوں نے انکار کردیا، اور نہایت پست ہمتی کا ثبوت دیا، اللہ تعالیٰ نے بطور سزا انہیں میدان تیہ میں پھینک دیا، جہاں وہ چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ اس طویل مدت کے بعد یوشع بن نون (علیہ السلام) کے ساتھ وہاں سے نکلے، اور بیت المقدس کو فتح کیا، جب وہ لوگ میدان تیہ میں زندگی گذار رہے تھے تو اللہ نے ایک سفید بادل کو ان کے سروں پر لا کر ٹھہرا دیا تاکہ آفتاب کی تمازت سے بچے رہیں، اور کھانے کےلئے (من و سلوی) دیا۔ من شبنم کی ماند ایک چیز تھی جو آسمان سے اترتی تھی اور درختوں اور پتھروں پر جم جاتی تھی، اور مزے میں شہد کی مانند میٹھی تھی، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ کماۃ (سانپ کی چھتری)، من کی ایک قسم ہے جسے اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے اتارا تھا، سلوی، بٹیر کے مشابہ ایک چڑھیا تھی۔ 110: اللہ تعالیٰ نے تو من و سلوی جیسی نعمتوں کو ان کے لیے حلال بنا دیا تھا تاکہ کھائیں پئیں اور اللہ کی عبادت کریں، لیکن نافرمانی اور سرکشی ان کی سرشت بن چکی تھی، اظہار بے صبری وناراضگی، بے ادبی، شکوہ و شکایت اور اللہ کی ناشکری ان کا شیوہ ہوچکی تھی، اس لیے اللہ کے عذاب کے مستحق بنے