وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب تم نے موسیٰ سے کہا کہ : ’’ہم تو جب تک اللہ کو علانیہ دیکھ نہ لیں تمہاری بات نہیں مانیں گے‘‘[٧١] پھر تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے تم پر بجلی گری (جس نے تمہیں ختم کردیا)
108: بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے، تم پر ایمان نہ لائیں گے۔ بہت سے مفسرین کی یہ رائے ہے کہ یہ وہی ستر آدمی تھے جنہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھ طور پر چلنے کے لیے چنا تھا، اور واپسی میں انہوں نے ر استہ میں یہ مطالبہ کیا تھا، یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف غایت درجہ کی جرأت تھی جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑا کہ آسمان سے ایک کڑک والی بجلی اتری جس نے دیکھتے دیکھتے ان کی جان لے لی۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا جاسکتا، لیکن مؤمنین صادقین آخرت میں اللہ کو دیکھ سکیں گے، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔