كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ
ہرگز ایسا نہیں چاہیے کہ انسان سرکشی کرنے لگتا ہے
(6) آیت (6) سے آخر سورت تک ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی تھی، احمد مسلم، نسائی، ابن جریر اور بیہقی وغیرہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ابوجہل نے پوچھا، کیا محمد تم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتا ہے؟ لوگوں نے کہا : ہاں، اس نے کہا : لات و عزی کی قسم ! اگر میں نے اسے اس طرح نماز پڑھتے دیکھ لیا تو اس کی گردن کو پاؤں سے کچل دوں گا اور اس کا چہرہ مٹی میں رگڑدوں گا چنانچہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس اس وقت آیا جب آپ نماز پڑھ رہے تھے، تاکہ آپ کی گردن کو کچل دے، لیکن جب وہ آپ کے قریب ہوا تو فوراً پیچھے ہٹنے لگا اور ہاتھ کے ذریعہ اپنے آپ کو بچانے لگا لوگوں نے پوچھا کیا : کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ میرے اور اس کے درمیان آگ سے بھرا خندق اور کوئی نہایت ڈراؤنی چیز ہے جس کے پر ہیں، تو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اگر وہ مجھ سے قریب ہوتا تو فرشتے اسے چیر پھاڑ کر اس کا ایک ایک عضو اچک لے جاتے۔ اسی حادثہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ﴿كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَى Ĭ سے آخر سورت تک نازل فرمایا۔