الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ
جس نے پاکیزہ ہونے [٩] کی خاطر اپنا مال دیا
(18)اور اپنے نفس کو بخل اور دیگر معاصی سے پاک کرنے کے لئے اپنا مال بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتا رہے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیتیں ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھیں بعض نے مفسرین کا اس پر اجماع نقل کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ابوبکر (رض) ان نیک لوگوں میں بدرجہ اولی داخل ہیں جن کی صفات ان آیات میں بیان کی گئی ہیں اس لئے کہ وہ صدیق تھے تقی تھے، کریم تھے، اور اپنا مال اپنے رب کی خوشنودی اور رسول اللہ (ﷺ) کی نصرت و تائید کے لئے خرچ کرتے تھے، انہوں نے محض اپنے رب کریم کی رضا کی خاطر بہت سارے اموال خرچ کئے، لوگوں کا ان پر کوئی احسان نہیں تھا جسے چکانے کے لئے وہ ایسا کرتے تھے بہت سےسردار ان عرب پر بھی ان کے احسانات تھے اسی لئے سردار ثقیف عروہ بن مسعود نے ان سے صلح حدیبیہ کے دن کہا تھا : اللہ کی قسم ! اگر تم نے مجھ پر احسان نہ کیا ہوتا جس کا بدلہ میں نے تمہیں نہیں چکایا ہے تو میں تمہاری تلخ باتوں کا جواب ضرور دیتا اور صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جس نے دو جوڑے اللہ کی راہ میں خرچ کئے، اسے جنت کے تمام داروغے پکاریں گے، اے اللہ کے بندے ! یہ دروازے بہتر ہے تو ابوبکر (رض) نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! جو لوگ ان میں سے الگ الگ دروازوں سے پکارے جائیں گے وہ تو پکارے ہی جائیں گے، کیا کوئی شخص ان میں سے ہر ایک دروازے سے پکارا جائے گا؟ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا : ہاں اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ انہی میں سے ہوں گے۔