لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
ان کی اکثر سرگوشیوں میں خیر نہیں [١٥٢] ہوتی۔ الا یہ کہ کوئی شخص پوشیدہ طور پر لوگوں کو صدقہ کرنے یا بھلے کام کرنے یا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا حکم دے۔ اور جو شخص ایسے کام اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرتا ہے تو ہم اسے بہت بڑا اجر عطا کریں گے
112۔ اس آیت کریمہ کا تعلق بھی بنی ابیرق ہی کے واقعہ سے ہے کہ اصل چور کو سزا اور عار سے بچانے کے لیے اس کے حمایتی آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ لیکن تفسیر کے قاعدے کے مطابق آیت کا حکم اور معنی عام ہے، کہ عام طور پر لوگوں کی سرگوشیوں میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں ہوتی، بھلائی صرف اس سرگوشی میں ہوتی ہے جس سے مقصود کوئی خیر کا کام کرنا ہو، جس کی صراحت یہاں اللہ تعالیٰ نے بطور استثناء کردی ہے کہ اگر کوئی شخص لوگوں سے چھپا کر صدقہ کرنے کے لیے یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے کے لیے، یا کسی اور کار خیر کے لیے سرگوشی کرے تو خیر ہے۔ آیت میں İابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِĬ دلیل ہے کہ ان اعمال کا اجر و ثواب پانے کے لیے شرط یہ ہے کہ ان کاموں سے مقصود اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو، ترمذی ابن ماجہ اور حافظ ابن مردویہ نے ام حبیبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا، ابن آدم کی ہر بات اس کے سر پر بوجھ ہوتی ہے، اس کے لیے مفید نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ اللہ کو یاد کرے، کسی بھلائی کا حکم دے یا کسی برائی سے روکے۔