وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ
قسم ہے آسمان کی اور رات کو آنے والے کی
(1/2/3/4) مفسرین نے لکھا ہے کہ سورتوں کی ابتدا قسم کے ذریعہ کرنے سے مقصود، سننے والے کو رغبت دلانا ہے کہ جو بات اس قسم کے بعد کہی جا رہی ہے اسے غور سے سنے، چنانچہ یہاں ابتدائی چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور روشن ستارے ” زحل“ یا ثریا، یا ہر چمکدار ستارے کی قسم کھا کر لوگوں کو یہ باور کرانا چاہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے لئے ایک محافظ فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو اس کے خیر و شر تمام اقوال و اعمال کو محفوظ کرتا رہتا ہے کسی انسان کا کوئی عمل بھی گم نہیں ہوجاتا۔ بعض مفسرین نے ” حافظ“ سے اللہ مراد لیا ہے، جو ہر انسان کا مراقبہ کرتا رہتا ہے اور اس کے خیر و شر اعمال کو فرشتوں کے ذریعہ نامہ اعمال میں درج کرتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب آیت (52)میں فرمایا ہے : ﴿وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا Ĭ” اللہ ہر چیز کا نگران و نگہبان ہے“ امام شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے۔