يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کرو (جہاد پر نکلو) تو اگر کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو اسے یہ نہ کہا کرو کہ تم تو مومن نہیں بلکہ [١٢٩] اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ اگر تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو تو اللہ کے ہاں بہت سے اموال [١٣٠] غنیمت ہیں۔ اس سے پہلے تمہاری اپنی بھی یہی صورت حال تھی۔ پھر اللہ نے تم پر [١٣١] احسان کیا، لہٰذا تحقیق ضرور کرلیا کرو۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو یقیناً اللہ اس سے خبردار ہے
101۔ اس آیت کے سبب نزول کے بیان میں امام احمد اور بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو سلیم کا ایک آدمی اپنی بکریاں چرا رہا تھا، کچھ صحابہ کا اس کے پاس سے گذر ہوا، تو اس نے سلام کیا، لیکن صحابہ نے کہا کہ یہ شخص اپنی جان اور بکریاں بچانے کے لیے ہمیں سلام کر رہا ہے، چنانچہ اسے قتل کردیا۔ اور اس کی بکریاں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس لے کر آئے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی حافظ ابوبکر بزار نے ابن عباس (رض) ہی سے ایک اور روایت نقل کی ہے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مقداد بن اسود کو ایک فوجی دستہ کا کمانڈر بنا کر کسی قبیلہ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا، جب مسلمان وہاں پہنچے تو سارے لوگ بھاگ گئے، صرف ایک آدمی رہ گیا جس کے پاس بہت سارا مال تھا۔ اسنے کلمہ شہادت پڑھ لیا لیکن اس کے باوجود مقداد نے اسے قتل کردیا۔ ایک صحابی نے کہا کہ آپ نے ایک ایسے آدمی کو قتل کردیا ہے جس نے کلمہ شہادت پڑھ لیا تھا، میں یہ واقعہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ضرور بیان کروں گا۔ چنانچہ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مقدار کو بلا کر پوچھا اور کہا کہ قیامت کے دن کلمہ لا الہ الا اللہ کا تم کیا کرو گے؟ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی روایت میں آتا ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مقداد سے کہا کہ تم بھی تو مکہ میں اپنا ایمان چھپاتے تھے، آیت کے اگلے حصہ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اے مسلمانو ! مکی زندگی میں تم بھی تو اپنا ایمان چھپاتے تھے۔