وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
پھر (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی تھی۔ یہ لوگ تمہیں سخت دکھ دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو تو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اور تمہاری اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے ایک [٦٨] بڑی آزمائش تھی
103: اب بنی اسرائیل پر اللہ کی نعمتوں کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہاں بھی خطاب اگرچہ یہود مدینہ سے ہے، لیکن مراد ان کے آباء و اجداد ہیں، اور آل فرعون سے مراد : فرعون، اس کا لشکر اور اس کے پیرو کار ہیں۔ اس آیت کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) نے کنعان سے اپنے والدین، بھائیوں اور خویش و اقارب کو مصر بلالیا، تو انہیں بادشاہِ مصر کے حکم سے زرخیز زمین دی، ان میں کثرت سے اولاد ہونے لگی۔ یوسف (علیہ السلام) اور عزیز مصر کے انتقال کے بعد ان کی وقعت تو گھٹ گئی، لیکن افزائش نسل ہوتی رہی۔ آخر کار مصر کا ایک ایسا بادشاہ ہوا جواسرائیلیوں کی کثرت دیکھ کر ڈر گیا اور اپنی قوم سے کہا کہ بنی اسرائیل ہم سے تعداد میں زیادہ اور شان و شوکت والے ہوگئے، یہ تمہارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہمیں ہماری سرزمین سے بے دخل کردیں، اس لیے اس نے حکم دیا کہ انہیں سخت سے سخت کاموں میں لگا دیا جائے۔ اور قرآن کریم کے ذکر کردہ واقعے کے مطابق اس نے ایک خواب دیکھا جس کی تاویل اسے یہ بتائی گئی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے ذریعہ اس کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا، اس لیے اس نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ہر لڑ کے کو ذبح کردیا جائے، بنی اسرائیل ان پر یشانیوں سے گذرتے رہے، یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور انہیں فرعون کے عذاب سے نجات دلایا۔