ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ
پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے
(19)پھر اس کے بیان کرنے کی ذمہ داری بھی ہم پر ہے بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ (ﷺ) کے پاس جب جبریل وحی لے کر آتے تو آپ غور سے سنتے اور جب جبریل چلے جاتے تو آپ ویسے ہی پڑھتے جس طرح جبریل نے پڑھاتھا۔ انتہی، سورۃ طہ آیت(114)میں اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے : ﴿وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُĬ ” آپ وحی ختم ہونے سے پہلے قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیجیے۔ “ حافظ ابن کثیر نے شعبی، حسن بصری، قتادہ، مجاہد اور ضحاک وغیرہ کا قول نقل کیا ہے کہ ان آیات کے نزول کا سبب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو وحی کا علم حاصل کرنے کی کیفیت سکھائی ہے۔ انتہی ۔ مفسرین نے ذکر قیامت کے درمیان ان آیتوں کے آنے کی کئی مناسبتیں بیان کی ہیں، ان میں سے ایک مناسبت یہ ہے کہ جب یہ سورت ﴿وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُĬ تک نازل ہوئی، تو رسول اللہ (ﷺ) نے چاہا کہ اسے جلد یاد کرلیں اور زبان ہلانے لگتاکہ اس کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِĬ سے ﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ Ĭ تک نازل فرمایا پھر قیامت سے متعلق کلام مکمل کیا۔ ﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ Ĭ کے ضمن میں مفسرین نے لکھا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے اپنی 23 سالہ نبوت کی زندگی میں قرآن کریم کی تشریح تو ضیح کے لئے جو کچھ کہا اور کیا اور جتنی باتوں کی تائید کی اور جتنی باتوں سے منع فرمایا، جسے اسلام کی زبان میں ” حدیث“ کہا جاتا ہے وہ پورا ذخیرہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی کا حصہ تھا اور اگرچہ قرآن نہیں تھا، لیکن قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں موجود ربانی وعدے کے مطابق وہ ذخیرہ قرآن کی تشریح اور اس کا بیان تھا اور امت کے لئے آسمانی وحی کی حیثیت سے واجب الاتباع تھا، اللہ تعالیٰ نے سورۃ النجم آیات (3/4)میں اسی بات کی تائید میں فرمایا ہے : ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ Ĭ ” اللہ کے نبی اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں، وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔ “