وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ
ہم نے دوزخ کے محافظ فرشتوں ہی کو بنایا ہے اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے آزمائش [١٤] بنا دیا ہے تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائے اور ایمانداروں کا ایمان [١٥] زیادہ ہو۔ اور اہل کتاب اور ایماندار کسی شک میں نہ رہیں اور تاکہ دل کے مریض [١٦] اور کافر یہ کہیں کہ : بھلا اللہ کا اس مثال سے کیا مطلب؟ اسی طرح اللہ جسے چاہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور آپ کے پروردگار کے لشکروں [١٧] کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور یہ (دوزخ کا ذکر) صرف اس لیے ہے کہ لوگوں کو نصیحت ہو۔
(31) ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب ابوجہل نے ” ﴿عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ Ĭ “ سنا، یعنی جہنم کے انیس داروغے ہیں تو قریش سے کہا تمہاری مائیں تم پر روئیں، محمد تمہیں خبر دیتا ہے کہ جہنم کے داروغے انیس ہیں، حالانکہ تمہاری تعداد بہت بڑی ہے کیا تم میں ہر دس شخص ایک داروغہ جہنم کو زیر نہیں کرسکے گا۔ اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے ابوالاشد نے کہا کہ تم لوگ جہنم کے داروغوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو میں تم سب کی طرف سے ان سے نمٹ لوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے﴿وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً Ĭ نازل کیا اور بتایا کہ جن کے ذمہ جہنم کی نگرانی اور ان میں داخل ہونے والوں کو عذاب دینا ہے وہ سب فرشتے ہیں ان پر کوئی غالب آسکتا ہے کہ کفار ان پر غالب آنے کی بات کرتے ہیں۔ آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے جہنم کے داروغے فرشتے مقرر کئے ہیں، یعنی انہیں جنوں اور انسانوں میں سے نہیں بنایا ہے کہ مبادا اپنے ہم جنس کے لئے ان کے دلوں میں رحم نہ پیدا ہوجائے۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں سے فرشتے اللہ کا حق ادا کرنے میں زیادہ جلدی کرتے ہیں اور اس کی نافرمانی پر زیادہ غضبناک ہوتے ہیں اور زیادہ قوی اور سخت گرفت کرنے والے ہوتے ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں جہنم کا ذمہ دار بنایا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے جہنم پر مامور فرشتوں کی جو تعداد یہاں بتائی ہے، اس سے مقصود کافروں کی آزمائش ہے، تاکہ جو لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں، ان پر اللہ کا غضب نازل ہو، اور ان کا عذاب کئی گنا بڑھا دیا جائے۔ اور مذکور بالا عددکے ذکر کرنے سے مقصود یہ بھی ہے کہ یہود و نصاری نبی کریم (ﷺ) اور قران کی صداقت پر یقین کرلیں، اس لئے کہ جہنم پر مامور فرشتوں کی یہی تعدادتورات و انجیل میں بھی مذکور ہے۔ نیز یہ بھی مقصود ہے کہ جب امت محمدیہ کے مؤمنوں کو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم کی یہی بات تو رات و انجیل میں بھی موجود ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوگا۔ مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے مقصود یہ ہے کہ اہل کتاب کے دل میں اسلام کی صداقت کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہ رہ جائے کیونکہ یہی بات ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے اور تاکہ مؤمنوں کا ایمان بڑھ جائے اور فرشتوں کی تعداد انیس بتانے سے مقصود یہ بھی ہے کہ کفار عرب اور مستقبل میں مدینہ منورہ میں پائے جانے والے منافقین نفاق و کفر کی وادیوں میں بھٹکتے رہیں اور اللہ اور قرآن کا مذاق اڑاتے رہیں کہ اس عجیب و غریب مثال کے ذریعہ اللہ نے کیا بتانا چاہا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر و ضلال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اسی طرح جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ کے رب کی فوجوں کی تعداد کو (چاہے وہ فرشتے ہوں یا غیر فرشتے) اس کے سوا کوئی نہیں جانتا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ جہنم کے ذمہ دار فرشتے انیس ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر فرشتے بے شمار ہیں جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ آیت (32) میں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ جہنم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جہنم پر مامور فرشتوں کی تعداد بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان اس سے عبرت حاصل کریں، اور جہنم کے عذاب سے ڈرتے رہیں۔